پاکستان کے مرکزی بینک کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ملک کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں گزشتہ ہفتے نمایاں کمی ہوئی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق 11 اگست کو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم 19 ارب 94 کروڑ ڈالر تھا اور یہ اکتوبر 2016ء کے بعد ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر کی کم ترین سطح ہے۔ اکتوبر 2016ء میں پاکستان کے غیر ملکی زرمبادلہ کا حجم 24 ارب سے زائد ہو گیا تھا۔
پاکستانی معیشت پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کی ایک بڑی وجہ پاکستان کی برآمدات میں کمی اور درآمدات میں اضافہ ہے۔
اقتصادی امور کے تجریہ کار قیصر بنگالی نے جمعہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "اس کی بنیادی وجہ پاکستان کا تجارتی خسارہ ہے، پاکستان کا تجارتی توازن ہمیشہ خسارے میں رہا ہے لیکن یہ چھوٹا خسارہ تھا لیکن 2000ء کے بعد اس میں اضافہ ہوتا گیا ۔۔۔ اب ہم ایک ڈالر کی برآمدات کے مقابلے میں دو ڈالر کے مساوی درآمدات کرتے ہیں۔۔۔ مختلف طریقوں سے ہم اس خسارے کو کم کرتے رہے لیکن اب ترسیلات زر میں بھی کمی ہو رہی ہے۔"
پاکستان کی حکمران جماعت کے رکن قومی اسمبلی اور امور خزانہ کے پارلیمانی سیکرٹری رانا محمد افضل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کا کم ہونا تشویش کی بات ہے تاہم انہوں نے کہا کہ حکومت اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے۔
انہوں نے کہا کہ "یہ تشویش کی بات ہے ہماری برآمدات کم ہو رہی ہے اور درآمدات بڑھ رہی ہیں۔ اب حکومت کوشش کر رہی ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمارے پاس تین ماہ (کی درآمدات) کے لیے زرمبادلہ کافی ہوں۔"
دوسری طرف اطلاعات کے مطابق زرمبادلہ میں تیزی سے ہونے والی کمی کی وجہ سے عالمی بینک کے مالیاتی ادارے بین الاقوامی بینک برائے تعمیر و ترقی یعنی 'آئی بی آر ڈی' کی طرف سے پاکستان کو قرضے کے حصول میں مشکل ہو جائے گی۔
واضح رہے کہ عالمی بینک کی پالیسی کے تحت یہ ضروری ہے کہ کوئی بھی ملک اس کے مالیاتی اداروں سے اسی وقت قرضہ کی سہولت حاصل کر سکتا ہے جب کے اس کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر اس کی تین ماہ کے برآمدات کے لیے کافی ہوں۔
پاکستان کی وزارت خزانہ کی طرف سے تاحال اس پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا ہے تاہم راںا افضل کا کہنا ہے کہ حکومت اپنے زرمبادلہ میں اضافے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اس کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ نا صرف ملکی برآمدات کے لیے کافی ہوں بلکہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی بھی آسانی سے کی جا سکے۔