وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ ملک میں موجود دینی مدرسے انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف حکومت کی معاونت کر رہے ہیں اور جلد ہی دہشت گردی کے خلاف نظریے کو اسلامی تصور کے مطابق علما کرام کے ذریعے ذرائع ابلاغ پر نشر کیا جائے گا۔
پاکستان میں دینی مدارس پر یہ کہہ کر تنقید کی جاتی رہی ہے کہ یہ انتہا پسندی کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں جب کہ رواں ہفتے ہی امریکی ایوان نمائندگان کی کمیٹی برائے امور خارجہ کے سربراہ ایڈ روئس کا کہنا تھا کہ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ فوراً ایسے مدرسوں کے خلاف کارروائی کرے جو بنیاد پرستی کا پرچار کرتے ہیں۔
لیکن ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ مدرسے اور علما کرام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہمارے معاون ہیں نہ کہ ہدف۔
"مدرسوں نے کون سی دہشت گردی کی ہے جو ہم ان کے خلاف ایکشن لیں مدرسوں نے ہر مقام پر ہمارا ساتھ دیا ہے، بیانیے پر ہمارا ساتھ دیا ہے، مذاکرات میں ہمارا ساتھ دیا ہے۔ اگر چند مدرسوں سے پڑھ کر کوئی دہشت گردی کرتا ہے تو بہت سارے اعلیٰ اسکولوں سے پڑھ کر بھی لوگ دہشت گردی کرتے ہیں ان اسکولوں کے خلاف بھی ہم ایکشن لیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ مدرسوں کی رجسٹریشن اور اس میں پڑھائے جانے والے نصاب پر حکومت اور ان مدارس کے منتظمین میں اتفاق ہو گیا ہے اور جو مدرسہ شدت پسندی کی تربیت دینے میں ملوث پایا گیا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
وفاقی دارالحکومت میں واقع لال مسجد حالیہ ہفتوں میں ایک بار پھر توجہ کا مرکز بنی ہے کیونکہ اس کے سابق خطیب مولوی عبدالعزیز کی طرف سے ملک میں شریعت نافذ کرنے کے اپنے مطالبے کو لے کر اپنے خطبات میں اس ضمن میں سخت بیانیہ استعمال کیا ہے۔
غالباً اسی بنا پر گزشتہ دو ہفتوں سے ہر جمعہ کو وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے بعض علاقوں خصوصاً لال مسجد کے گرد و نواح میں موبائل فون سروس دن میں دو گھنٹوں کے لیے معطل ہو جاتی ہے۔
تاہم فون سروس کی معطلی کی سرکاری طور پر کوئی وجہ سامنے نہیں آئی۔
وفاقی وزیرداخلہ نے اسلام آباد میں کارروائی نہ کرنے سے متعلق اٹھنے والے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ "25 ہزار سے زیادہ مدرسوں کے طلبا ہیں یہاں میں پولیس سے کہوں کہ بندوق لے کر ان کے پیچھے لگ جائے۔۔۔ان سے کیوں سوال نہیں کیا جاتا جنہوں نے یہاں گرین ایریاز میں پنپنے کی اجازت دی۔"
ان کے بقول وہ یہ یقین دلاتے ہیں کہ قانون توڑنے والوں کے خلاف قانون تیزی سے حرکت میں آئے گا۔
ادھر پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے ہفتہ کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے دورے کے موقع پر کہا کہ ملک بھر میں دہشت گردوں کے رابطوں اور نیٹ ورکس کو توڑ دیا گیا ہے اور امن کو ہرقیمت پر بحال کیا جائے گا۔
پاکستانی فوج نے گزشتہ سال جون سے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کر رکھا ہے جس میں حکام کے بقول اب تک 3400 ملکی و غیر ملکی مشتبہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا جا چکا ہے۔