رواں ماہ بھارت میں منعقد ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کرکٹ کپ میں پاکستانی ٹیم کی ممکنہ شرکت سے پہلے سکیورٹی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے دو رکنی پاکستانی وفد پیر کو بھارت پہنچا ہے۔
مقامی میڈیا میں سامنے آنے والی اطلاعات کے مطابق اس وفد میں پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ایک افسر کے علاوہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سکیورٹی کے امور کے عہدیدار بھی شامل ہیں۔
بھارت میں گزشتہ کچھ عرصے سے چند ایک انتہا پسند حلقوں کی طرف سے پاکستان ٹیم کے دورہ بھارت اور دونوں ملکوں کی ٹیموں کے درمیان دھرم شالا میں کھیلے جانے والے ٹی ٹوئنٹی میچ کی مخالفت کی جا رہی ہے جس کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو پاکستان کی ایک سکیورٹی ٹیم بھارت بھیجنے کی ہدایت کی تھی تاکہ وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے دورہ سے پہلے وہاں سکیورٹی صورت حال اور اس حوالے سے بھارت کی طرف کیے گئے اقدامات کا جائزہ لے۔
پاکستانی وفد اپنے دورہ بھارت کے دوران ہما چل پردیش کے وزیر اعلیٰ اور دھرم شالا میں پولیس حکام سے ملاقات کرے گا جہاں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے مابین ٹی ٹوئنٹی کا میچ 19 مارچ کو کھیلا جانا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ پاکستان ٹیم کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں شرکت کا انحصار پاکستان کی طرف سے بھیجی جانے والے دو رکنی سکیورٹی ٹیم کی رپورٹ پر ہے۔
پاکستان میں کرکٹ کے شائقین اور مبصرین کا ماننا ہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنا نا صرف کرکٹ کے کھیل، بلکہ شائقین کی دلچسپی کے حوالے سے اہم ہو گا تاہم ان کے خیال میں اس کے لیے سکیورٹی کی صورت حال کا تسلی بخش ہونا بھی ضروری ہے۔
پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کے تجزیہ کار نعمان نیاز نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’سکیورٹی کا معاملہ سب سے پہلے ہے اور جس طرح کے بیانات وہاں سے آ رہے تھے اور بی سی سی آئی کا تو کہنا ہے کہ وہ ہر طرح کی سکیورٹی فراہم کر پائیں گے لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ (سکیورٹی ٹیم کو بھیجنا) ایک اچھا فیصلہ ہے اور ہم اپنے کھلاڑیوں کو مشکل میں کیوں ڈالیں جب تک بی سی سی آئی اور بھارتی حکومت سکیورٹی فراہم نہیں کرتے ہیں۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے سفارتی و سیاسی تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا اثر نا صرف ان کے باہمی تعلقات پر ہوتا ہے بلکہ اس سے دونوں ملکوں کے مابین عوامی رابطوں کے ساتھ ساتھ کھیل کا شعبہ بھی متاثر ہوتا ہے۔
گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان براہ راست کرکٹ میچوں کا انعقاد نہیں ہو سکا ہے اور نہ ہی گزشتہ سال پاکستان میں دونوں ملکوں کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان مجوزہ کرکٹ سیریز کا انعقاد ہو سکا ہے۔