پاکستان کے ایک تھنک ٹینک نے کہا ہے کہ پاکستان کو جوہری طاقت کے طور پر تسلیم کر کے اسے وہی مراعات دی جانی چاہیئیں جو جوہری عدم پھیلاؤ پر دستخط نہ کرنے والے دیگر ممالک کو حاصل ہیں۔
اسلام آباد میں قائم اسٹریٹجک ویژن انسٹی ٹیوٹ نے پیر کو اپنی سفارشات جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو اپنے سکیورٹی مفادات پر کوئی سمجھوتا قبول نہیں کرنا چاہیئے۔
گزشتہ ماہ وزیراعظم نواز شریف کے دورہ واشنگٹن کے موقع پر ذرائع ابلاغ میں ایسی خبریں شائع ہوئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ واشنگٹن کی طرف سے پاکستان کو اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے عوض نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا حصہ بنانے کے پیشکش کی گئی ہے۔
پاکستان کے حکام نے ایسی خبروں کی سختی سے تردید کی تھی کہ پاکستان ایسی کسی پیشکش پر غور کر رہا ہے اور کہا تھا کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام اور قومی سلامتی پر کوئی سمجھوتا قبول نہیں کرے گا۔
رواں ماہ جنرل راحیل شریف بھی واشنگٹن کا دورہ کر رہے ہیں اور ایک بار اس موضوع پر بحث چھڑ گئی ہے۔
گزشتہ ہفتے امریکہ کے مؤقر روزنامے ’نیویارک ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے ایک اداریے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں میں اضافہ باعث تشویش ہے جن میں محدود پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ٹیکٹیکل ہتھیار بھی شامل ہیں جو وہاں موجود انتہا پسند گروہوں کے ہاتھ لگ سکتے ہیں۔ اداریے میں یہ بھی کہا گیا کہ اس کی وجہ بھارت کی طرف سے مذاکرات سے انکار ہے۔
اسٹریٹجک ویژن انسٹی ٹیوٹ نے امریکہ کے تھنک ٹینک کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس اور سٹمسن سینٹر کی مشترکہ تجاویز کو مسترد کیا جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کو فل سپیکٹرم یعنی مکمل جوہری صلاحیت کی بجائے، سٹریٹجک یعنی محدود صلاحیت برقرار رکھنی چاہیئے اور کم فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں اور ٹیکٹیکل ہتھیاروں کی پیداوار کو محدود کرنا چاہیئے اور بھارت کا انتظار کیے بغیر جوہری تجربات پر پابندی کے جامع منصوبے پر دستخط کر دینے چاہیئیں۔
اسٹریٹجک ویژن انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر ظفر چیمہ نے کہا کہ پاکستان کو جوہری سہولتوں تک رسائی کی تجاویز امتیازی ہیں جن کا مقصد پاکستان کی جوہری ہتھیار بنانے کی صلاحیت اور بیلسٹک میزائلوں کی حد کو محدود کرنا ہے۔
’کارنیگی انڈاؤمنٹ فار انٹرنیشنل پیس‘ اور ’دی سٹمسن سینٹر‘ کی مشترکہ رپورٹ کے مطابق پاکستان تیزی سے اپنی جوہری صلاحیت بڑھا رہا ہے اور چند سالوں میں اس کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد امریکہ اور روس کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر چیمہ نے کہا کہ یہ تجزیہ درست نہیں اور رپورٹ میں پاکستان اور بھارت کی صلاحیت کا اندازہ لگانے کے لیے مختلف معیار استعمال کیے گئے ہیں۔