دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی معاونت کرنے والے ملکوں کو انسداد دہشت گردی پر اٹھنے والے اخراجات کی ادائیگی اور امداد کے لیے کانگریس نے رواں ہفتے ہی نیشنل ڈیفنس اتھارائزیشن ایکٹ 2017ء کی منظوری دی جس میں پاکستان کے لیے 40 کروڑ ڈالر کی رقم کو دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کی توثیق سے مشروط کیا گیا ہے۔
گو کہ پاکستان نے اس مسودہ قانون کی منظوری پر سرکاری طور پر تو کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا لیکن سرکاری ٹی وی کے ایک پروگرام میں سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے اس تاثر کو ایک بار پھر مسترد کیا کہ پاکستان دہشت گردوں خصوصاً حقانی نیٹ ورک کے خلاف قابل اعتماد کارروائی نہیں کر رہا۔
امریکی مسودہ قانون میں یہ کہا گیا ہے کہ 40 کروڑ ڈالر پاکستان کو اسی صورت ادا کیے جائیں گے جب امریکی وزیردفاع کانگریس کو یہ تصدیق کریں کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف قابل بھروسہ کارروائی کر رہا ہے۔
پاکستانی سیکرٹری خارجہ کا کہنا تھا کہ حقانی نیٹ ورک افغان طالبان کا حصہ ہے اور ان کے زیادہ تر لوگ افغانستان میں ہیں اور پاکستان اس عزم پر بدستور قائم ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی ہر گز اجازت نہیں دے گا۔
گزشتہ ہفتے ہی افغانستان کے صدر اشرف غنی نے ایک بار پھر اپنے ملک میں ہونے والی تخریبی کارروائیوں کا الزام پاکستان پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گرد ان کارروائیوں کے لیے پاکستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔ تاہم پاکستان نے اس الزام کو مسترد کیا تھا۔
اعزاز چودھری کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے لوگوں کو واضح پیغام پہنچا دیا تھا کہ وہ اگر پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں تو پرامن رہیں بصورت دیگر یہاں سے نکل جائیں۔
"طالبان اور حقانی نیٹ ورک کو ہم نے واضح پیغام دیا ہے کہ آپ افغانستان میں کسی بھی قسم کی دہشت گردی یا تشدد میں شامل مت ہوں اور اگر آپ اپنی روش نہیں بدل سکتے تو پاکستان کی سرزمین آپ کو خوش آمدید نہیں کہہ سکتی۔۔۔بہت سارے لوگ چلے گئے اور ہم افغانستان کو بھی یہ کہہ رہے تھے کہ تیاری رکھیں۔"
ڈھائی سال قبل پاکستان نے شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ تصور کیے جانے والے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بھرپور کارروائی کا آغاز کیا تھا جس میں ہزاروں ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کو ہلاک کرتے ہوئے ان کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کا بتایا جا چکا ہے۔
امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری ان کوششوں کا اعتراف تو کرتی ہے لیکن ایسے واقعات بھی سامنے آتے رہے ہیں کہ جب دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی سنجیدگی پر شک و شبہات نے جنم لیا۔
رواں سال مئی میں افغان طالبان کے امیر ملا اختر منصور بلوچستان کے سرحدی علاقے میں ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔ ان کے پاس سے پاکستان کی جعلی شناختی دستاویزات برآمد ہوئی تھیں۔
تاہم اسلام آباد کا موقف رہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن کے لیے سنجیدگی سے اپنی حمایت کے عزم پر قائم ہے اور ملا منصور کے بارے میں اس کے پاس کوئی اطلاع نہیں تھی۔
دہشت گردی کے خلاف کامیابیوں کا اعادہ کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری کا کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال پر پاکستان کو الزام دینے کی بجائے پاکستان کے تجربات سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔
"جو بولتے تھے کہ کوئٹہ شوریٰ، پشاور شوریٰ، میران شاہ شوریٰ اور کراچی شوریٰ پتا چلا کہ کوئی چیز ایسی نہیں ہے ساری جگہوں پر ہماری سکیورٹی فورسز موجود ہیں۔ پاکستان پر الزام تراشی سے افغانستان میں ناکامیوں پر پردہ ڈالنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔۔۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جو کامیابیاں حاصل کی ہیں اس کے تجربات سے سیکھا جائے۔"
پاکستان گو کہ 2001ء میں شروع ہونے والی انسداد دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کا قریبی اتحادی رہا ہے لیکن دونوں ملکوں کے درمیان اس معاملے پر اتار چڑھاؤ بھی رہا اور اسی بنا پر متعدد بار پاکستان کے لیے امداد کی فراہمی معطل یا موخر ہوتی رہی ہے۔
سینیئر تجزیہ کار طلعت مسعود نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دونوں ملک تعاون جاری رکھنے کے لیے باہمی اعتماد کو فروغ دینے جیسے اقدام پر توجہ دیں۔
"پاکستان کو بھی لچک دکھانا پڑے گی اور امریکہ کو بھی۔۔۔یہ ایسی پالیسیاں بنائیں جو کہ دونوں ملکوں پاکستان اور افغانستان اور پھر امریکہ کے مفاد میں ہوں اس قسم کی پالیسی کے لیے ایک نئی سوچ کی ضرورت ہے۔"
ان کا کہنا تھا کہ الزام تراشی اور دباؤ کے طرز عمل سے مقاصد کے حصول میں کامیابی ایک مشکل امر ہوگا۔