جیمی ڈٹمر
یوکرین پر روسی حملے کے نتیجے میں مقبوضہ علاقوں کے شہری خوف اور دہشت کا شکار ہیں۔ ایک طرف فائرنگ ہو رہی ہے تو دوسری طرف انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ بجلی، گیس اور پانی غائب، اشیائے ضرورت نایاب۔ ہر ناکے پر انہیں روک کر ان کی تلاشی لی جاتی ہے۔
پچھلے ہفتے یوکرین کی ایک قانون ساز رکن لیزا ویسیلینکو نے بتایا کہ کیف کے نزدیک کچھ مقبوضہ قصبوں میں خواتین کے ساتھ نازیبا سلوک کیا گیا اور انہیں جنسی طور پر حراساں کیا جا رہا ہے۔ مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ خود روسی فوجی بھی انتشار اور بے دلی کا شکارہونے کے ساتھ ساتھ لوٹ مار کر رہے ہیں۔
جنوبی قصبے خیرسان کی ایک خاتون نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ " وحشی درندے بھوکے ہیں۔ پہلے تو گھر گھر جاکر کھانا مانگتے ہیں، نہ صرف گھروں سے خوراک لے جاتے ہیں بلکہ دکانوں سے خوراک چرا کر لے جاتے ہیں''۔
اس خاتون نے بتایا کہ ''یہ لوگ گاڑیوں اور ٹرکوں کو لے جاتے ہیں اور اس پر حرف Z کندہ کر دیتے ہیں"۔ یہ حرف روسی حملے کی حمایت کی علامت کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
مقامی افراد لوٹ مار کی وجوہات کے بارے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ اس کا مقصد عوام کے عزم اور حوصلے کو متزلزل کرنا ہے، کچھ کا خیال ہے کہ ںظم وضبط سےعاری بھوکے روسی فوجیوں کی یہ محض غنڈہ گردی ہے۔
ایک اور قصبے بوچا کی شہری ویرو نیکا تین دن تک روسیوں کی قید میں رہیں، قید سے فرار ہونے کے بعد انہوں نے وی اے او کو بتایا کہ " وہ لوگوں کے گھروں پر پوری طرح قابض ہیں اور وہیں کھاتے پیتے اور اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں۔ جب وہ جاتے ہیں تو گھر کا قیمتی سامان اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہاں تک اشیائے خوردو نوش بھی سمیٹ کر لے جاتے ہیں۔ بعض اوقات وہ گھروں کو نذرآتش بھی کر دیتے ہیں اور لوگوں کو بلاوجہ گولی مار کر ہلاک کر دیتے ہیں۔
ویرونیکا نے مزید بتایا کہ بوچا پر دوسرا حملہ پہلے سے بدتر تھا۔ پہلا حملہ کرنے والے پیشہ ور فوجی تھے، ان میں نظم و ضبط بھی تھا، مگر دوسری بار حملہ کرنے والے بالکل جنگلی درندے تھے۔
روسی فوجیوں نے خیرسان کا محاصرہ 27 فروری کو کیا تھا اور پھر تین مارچ تک اس پر قبضہ جما لیا۔ شہر کے میئر نے فوجیوں سے کہا کہ وہ شہریوں پر گولیاں نہ چلائیں۔ انہوں نے اپنے شہریوں سے کہا کہ وہ ان کے احکامات کی پابندی کریں تاکہ وہ فوجیوں سے معاملات طے کر سکیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ شہر پر قبضہ تو کرلیا ہے مگر وہاں کے شہری اب بھی پر امن احتجاج کر رہے ہیں، جس کے جواب میں روسی فوجی ان پر سنگ باری کرتے ہیں یا گولیاں چلاتے ہیں۔ یہی حال یوکرین کے ان دیگر شہروں اور قصبوں کا ہے، جن پر روس نے قبضہ کر لیا ہے۔
گیارہ مارچ کو میلٹوپول کے میئر ایوان فیڈروف کوروسی فوجیوں نے اغوا کر لیا، جس پر مقامی شہریوں نےسخت احتجاج کیا۔ پچھلے ہفتے نو روسی جنگی قیدیوں کے تبادلے کے عوض انہیں رہا کیا گیا۔ انہوں نے روسی زبان کے ٹیلی ویژن چینل "کرنٹ ٹائم ٹی وی" پر جسے ریڈیو فری یورپ اور وی اے او نے دیکھا، انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک اذیت ناک وقت سے گزرے، سات گھنٹے تک ان کے سر پر بھاری بوریاں لاد کر پیدل چلایا گیا۔ اسی طرح پچھلے ہفتے جنوبی یوکرین کےایک اور چھوٹے سے قصبے نپروروڈنے کے میئر بھی اغوا کیا گیا ہے ، جن کا اب تک کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔
یوکرین کے مقبوضہ شہروں اور قصبوں میں روسی قبضے خلاف لوگوں کا احتجاج اور مزاحمت جاری ہے۔ دوسری طرف مشکوک سیاسی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور انہیں ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے۔ خیرسان قصبے کے ایک شخص نے بتایا کہ لوگوں نے ڈر کے مارے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر درج پیغامات مٹا دیے ہیں۔
مقبوضہ بستیوں میں ادویات کی دکانیں یا تو خالی ہیں یا بند پڑی ہیں، اسی طرح کھانے پینے کی دکانیں بھی خالی ہیں۔ اشیائے ضرورت کی قلت کے باجود مقامی آبادی روسی انسانی امداد کو قبول کرنے سے گریزاں ہے، جو روس دنیا کو دکھانے لیے کر رہا ہے۔ یوکرین میں انسانی ہمدردی کا کام کرنے والے ایک شخص کا کہنا ہے کہ یہ امداد محض روسی پراپینگڈا ہے۔
ملک سے فرار ہونا بھی جان جوکھم کا کام ہے۔ بوچا قصبے کی ایک خاتون این ہیلینا اپنے خاندان کے ہمراہ انسانی ہمدردی کے نام پر کھولی گئی ایک راہداری سے نکلیں تو راستے میں انہیں اور ان کے خاندان کو ان گنت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ سفید جھنڈا لے کر یہ خاندان ہر جگہ پر روکا جا رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے ساتھ تین سالہ بچّے کو بھی اوپر ہاتھ اٹھانے پڑتے تھے۔ صورت حال یہ تھی کہ نہ ہم واپس جا سکتے تھے اور نہ آگے۔ ہم سارے راستے یہی سوچتے رہے کہ روسی نہ جانے کیا سلوک کریں گے، بہرحال ٹھوکریں کھاتے اب ہم محفوظ جگہ پر پہنچ گئے ہیں۔ این ہیلینا نے بتایا کہ راستے میں ہم نے سڑکوں کے کنارے لاشیں پڑی دیکھیں۔