کس قسم کی خوراک کھانے کے بعد آپ کا خون زیادہ میٹھا ہو جاتا ہے یہاں میٹھے خون سے ہماری مراد بلڈ شوگر ہے جسے طبی اصطلاح میں 'گلوکوز' کہا جاتا ہے۔ ماہرین حیاتیات نے اس سوال کا جواب ایک ریاضی کے فارمولے کی مدد سے دیا ہے جو بتاتا ہے کہ ایک ہی جیسی غذا مختلف لوگوں کے خون میں شکر کی مختلف مقدار بڑھانے کی طرف لے جا سکتی ہے۔
تازہ مطالعہ کے مطابق ایک بسکٹ کھانے سے شاید ایک شخص کو فوری طور پر توانائی حاصل ہو سکتی ہے لیکن، کسی دوسرے شخص پر اس کا بہت کم اثر ہو سکتا ہے جس سے ایک بات صاف ہو جاتی ہے کہ ایک غذا جو آپ کے لیے اچھی ہے شاید میرے لیے بری ہو سکتی ہے۔
محققین نے سائنسی جریدہ 'سیل' میں لکھا کہ کھانے کے بعد لوگوں کے خون میں شکر کی سطح مختلف طریقے سے بڑھتی یا گرتی ہے حتیٰ کہ جب وہ ایک ہی طرح کے پھل، روٹی، میٹھی ڈش، پیزا یا دوسری کھانے کی اشیاء کھاتے ہیں تو بھی ان کے خون میں شکر کی مقدار مختلف ظاہر ہوتی ہے جس سے یہ پتا چلتا ہے کہ غذا کا انتخاب ذاتی خصوصیات کے مطابق کیا جانا چاہیئے۔
ماہرین کی ٹیم کی قیادت محقق ایرن ایلینور اور کمپیوٹینل حیاتیات سے وابستہ پروفیسر ایرن سیگل نے کی، جنھوں نے 800 رضا کاروں میں بلڈ شوگر کی سطح کو ایک ہفتے تک مانیٹر کیا۔
اس دوران شرکاء کو محققین کی طرف سے فراہم کردہ ناشتہ دیا گیا اگرچہ شرکاء نے ایک ہی جیسے کھانے کھلائے تھے اس کے باوجود ان کے خون میں شکرکی سطح حیرت انگیز طور پر مختلف تھی۔
محققین نے نتیجہ اخذ کرتے ہوئے کہا کہ کھانے کے بعد خون میں شکر کی مقدار میں اضافے یا کمی کے لیے دیگر عوامل مثلاً لوگوں کی عادات، ان کے کھانے پینے کے طرز عمل، آنتوں میں رہنے والے جرثومے، وزن، بلڈ پریشر، نیند، کولیسٹرول کی سطح بھی ذمہ دار ہے۔
'ویسٹ ورجینیا یونیورسٹی' سے تعلق رکھنے والی محقق کلے مارش نے کہا کہ نتائج سے ظاہر ہوا کہ کھانے کے بعد خون میں شکر کی مقدار کا بڑھنا صرف اس بات پر منحصر نہیں تھا کہ آپ کیا کھاتے ہیں بلکہ اس پر بھی تھا آپ کا جسمانی نظام غذا کو کس طرح پروسس کرتا ہے۔
تحقیق کے شریک مصنف ایرن ایلینور نے کہا کہ اس طرح کے انفرادی اختلافات کو پہلی بار مقدار میں ناپا گیا ہے مثال کے طور پر ایک روٹی کھانے سے ایک شخص کے خون کے ہر ایک ڈیسی لیٹر یا 100 ملی لیٹر میں اوسطاً 44 ملی گرام شکر کی پیداوار ہوتی ہے۔
لیکن اس نتیجے کے برعکس کچھ لوگوں میں اتنی ہی مقدار میں روٹی کھانے کے بعد خون میں شکر کی مقدار ہر ایک ڈیسی لیٹر پر صرف 15 ملی گرام بڑھی تھی اسی طرح کچھ دوسرے شرکاء کےخون میں شکر کی مقدار ہر ایک ڈیسی لیٹر میں 97 ملی گرام تک جا پہنچی تھی۔
شریک محقق ایرن سیگل نے کہا ایک غذا جو ہمارے مطالعے میں ایک شخص کے لیے اچھی ڈائیٹ میں شمار کی گئی تھی کئی بار دوسرے شرکاء کے لیے بری غذا کی فہرست میں شامل تھی۔
مثال کے طور پر ایک خاتون کے خون میں شکر کی سطح ایک ٹماٹر کھانے کی وجہ سے زیادہ بڑھ گئی تھی لیکن ٹماٹر دوسرے شرکاء کے غذائیت والے کھانوں کی فہرست میں شامل تھا۔
سائنس دانوں نے کہا کہ اچھی غذا وہ تھی جس نے کھانے کے بعد خون میں شکر کی مقدار کو اعتدال پر رکھا تھا جبکہ بری غذا نے شکر کو آسمان پر پہنچا دیا تھا جبکہ ان غذاؤں میں حراروں کی ایک ہی جیسی مقدار شامل تھی۔
محقق ایرن ایلینور اور پروفیسر ایرن سیگل نے بلڈ شوگر پر غذا کے اثرات کے حوالے سے ایک کمپیوٹر الگورتھم طریقہ کار( الخورزمی کے حساب کتاب یا ڈیٹا پروسسنگ کے فارمولے الگورتھم) تخلیق کیا جس پر ایک شخص کی 137 ذاتی پیمائش کی جانچ پڑتال کی اور دیکھا کہ ایک خاص قسم کی غذا کھانے کے بعد اس شخص کے خون میں شکر کی مقدار بڑھ سکتی ہے یا گر سکتی ہے۔
محققین کی ٹیم نے پہلے ایک سو لوگوں کے ایک گروپ پر تجربہ کیا اور بعد میں 26 شرکاء کے گروپ کو خاص قسم کے کھانے کھلائے جس کے بعد الگورتھم طریقہ کار نے ہر شخص کی غذا کا تجزیہ کیا اور 12 شرکاء کے لیے غذا کا انتخاب کیا جبکہ بقیہ شرکاء کی غذا کا انتخاب ماہرین غذائیت کی طرف سے کیا گیا۔
محققین نے کہا کہ کمپیوٹر الگورتھم نے بارہ شرکاء میں سے 10 کے لیے اچھی اور بری غذا کے لیے بالکل درست پیش گوئی کی تھی جو ماہرین غذائیت کی پیش گوئی سے ملتی جلتی تھی تاہم محققین کہتے ہیں کہ کمپیوٹر الگورتھم کے طریقے کار کی مدد سے زیادہ لوگوں کی غذا کا انتخاب کرنا آسان ہو سکتا ہے۔
محققین نے کہا کہ ہمارے اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ لوگوں کے لیے ذاتی غذا کا انتخاب کرنا زیادہ اچھی بات ہو گی بجائے اس کے کہ آبادی کی اوسط پر انحصار کرتے ہوئے صحت کی ہدایات جاری کی جائیں جو کچھ صورتوں میں خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔