پاکستان کے وفاقی دارالحکومت میں ایک شخص نے اپنی نو عمر بیٹی کو مبینہ طور پر 'نام نہاد غیرت کے نام پر' قتل کر دیا ہے۔
پولیس کے مطابق پندرہ سال لڑکی کو اس کے والد نے اسلام آباد کے گولڑہ ریلوے اسٹیشن کے قریب واقع علاقے میں منگل کی صبح گلا گھونٹ کر ہلاک کر نے کے بعد خود ہی فون کر کے پولیس کو اس واقعہ سے آگاہ کیا۔
گولڑہ پولیس اسٹیشن کے سب انسپکٹر آصف خان نے 'وی او اے' کو بتایا کہ پولیس نے موقع پر پہنچ کر ملزم کو گرفتار کر لیا۔
انہوں نے کہا کہ مقتولہ کی والدہ کی درخواست پر اس کے شوہر کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔
انسپکٹر آصف کے بقول ملزم کی طرف سے دیئے گئے اعترافی بیان سے یہ ’’غیرت کے نام پر قتل‘‘ کا واقعہ معلوم ہوتا ہے۔
پاکستان میں ایسے واقعات رونما ہوتے آئے ہیں جن میں خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا اور ان واقعات میں زیادہ تر ان کے گھر کے افراد ملوث ہوتے ہیں جو اکثر سزا سے بچ جاتے ہیں کیونکہ مقدمہ کے مدعی مجرموں کو معاف کر دیتے تھے۔
تاہم گزشتہ سال حکومت نے اس قانونی سقم کو دور کرنے کے لیے ایک نیا قانون وضح کیا تھا، جس کے تحت اگر غیرت کے نام پر قتل کے کسی مجرم کو مدعی معاف بھی کر دیں تو پھر بھی وہ عمر قید کی سزا سے نہیں بچ سکے گا۔
نیشنل کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کی چیئرپرسن خاور ممتاز نے کہا کہ اس قانون کے باوجود ایسے واقعات میں کسی طور بھی کمی نہیں آ رہی ہے۔
"ہمارے ہاں تو مقدمات میں سزائیں ملنے کی شرح بہت کم ہے، دو یا تین فیصد مقدمات میں مجرموں کو سزائیں ملتی ہیں۔۔۔ اور ہمیں کوئی اور طریقہ کار ڈھونڈنا ہو گا۔ کمیشن کی سطح پر بھی سوچ بچار ہو رہی اور پولیس کے ساتھ بھی بات چیت ہورہی ہے اور یہ ایک سماجی مسئلہ بن گیا ہے اور ابھی تک اس کا سد باب نظر نہیں آ رہا ہے۔"
انہوں نے کہا کہ ایسے واقعات کے روک تھام کے لیے موثر لائحہ عمل وضح کرنے کی ضرورت ہے۔
" جہاں گرفتار کرنے کی ضرورت ہو وہاں گرفتار کیا جائے اور ان لوگوں کو معافی نامہ کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ ایک دو ایسے اہم مقدمات کی سماعت ہو رہی ہے اور اگر سزائیں ہوئیں شاید وہ ایسے واقعات کو روکنے کا باعث بن سکیں۔ ہمیں تحفظ فراہم کرنے لیے مراکز قائم کرنے ہوں گے تاکہ جو خواتین خطرے میں ہوں وہ پناہ لے سکیں۔"
پاکستان میں قدامت پسند روایت سے ہٹ کر زندگی بسر کرنے کی کوشش اور اپنی پسند کی شادی کرنے پر ہر سال سیکنڑوں کی تعداد میں خواتین کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور ان میں زیادہ تر واقعات میں گھر کے لوگ ہی ملوث ہوتے ہیں۔
خاور ممتاز کا کہنا ہے جہاں قانون کے موثر اطلاق اور مجرموں کو کڑی سزائیں دینے کی ضرورت ہے وہیں معاشرے میں برداشت اور رواداری کو فروغ دینے سے خواتین سے متعلق منفی رویوں کو تبدیل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
پاکستان میں حالیہ مہینوں میں غیرت کے نام پر قتل کے واقعات تواتر کے ساتھ منظر عام پر آتے رہے ہیں جن کا نشانہ نا صرف خواتین بنیں بلکہ بعض واقعات میں مرد بھی ان کا نشانہ بنے۔