بالی ووڈ کی فلم ’دھوم تھری‘ پاکستان اور بھارت میں کامیابی کے جھنڈے گاڑنے کے بعد، امریکی باکس آفس پر بھی میگاہٹ ثابت ہوئی ہے۔ وہاں اِس فلم نے اور کیا ہلچل مچائی ہے، ذیل میں ملاحظہ کیجئے
کراچی —
عامر خان کی نئی فلم ’دھوم3‘ کی ریلیز سے پہلے ہی لوگوں کو اندازا تھا کہ فلم بلاک بسٹرثابت ہوگی۔ فلم نے’کھڑکی توڑ‘ ہی نہیں ’ریکارڈ توڑ‘ کامیابی بھی حاصل کی۔ کیا لوکل اور کیا انٹرنیشنل۔۔تمام باکس آفس ’دھوم3‘ کے لئے ’چھوٹے‘ پڑ گئے۔
فلم میں ہر وہ مصالحہ موجود ہے جو کسی بھی فلم کی کامیابی کی گارنٹی سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً، مسڑ پرفیکشنسٹ عامرخان، تیزرفتار گاڑٰیاں، ہٹ میوزیکل نمبرز، ہاٹ آئٹم سانگز، خوبصورت سرکس پرفارمنسز اور کڑک پولیس افسر۔۔
ایک بھارتی ویب سائٹ ’باکس آفس گرو‘ کے گیتیش پانڈیا نے جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں ان کے مطابق ’دھوم3‘ نے اب تک انٹرنیشنل مارکیٹ میں 83ملین ڈالرز سے زیادہ کا بزنس کرلیا ہے، جبکہ امریکی باکس آفس پر فلم 8ملین ڈالرز سے بھی زیادہ کما چکی ہے۔
امریکا میں ہندی فلموں کے 30 لاکھ فلم بین
پانڈیا کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں ساوٴتھ ایشیا سے تعلق رکھنے والے آڈئینس کی تعداد بڑھی ہے۔ اب یہ تعداد 30 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ بھارتی کمپنی ’بگ سینماز 2007ءسے اب تک امریکا بھر میں 200 سے زیادہ اسکرینز خرید چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر درمیانے درجے کی مارکیٹس میں واقع ہیں، جہاں بالی وڈ فلمیں پیش کی جاتی ہیں۔ بھارت کے علاوہ پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں کی بھی بڑی تعداد فلم دیکھنے کے لئے ان تھیڑز کا رخ کرتی ہے۔
امریکا میں پیدا ہونے والی نسل میں فلموں کا جنون
امریکا میں پیدا ہونے اور یہیں پروان چڑھنے والی نئی نسل بھی بالی وڈ فلموں کا شوق رکھتی ہے۔ وہ ہر نئی فلم دیکھتے بھی ہیں اور فلم سے پہلے ریلیز ہونے والے پروموز کو بھی بھرپور انداز میں انجوائے کرتے ہیں۔ یہاں ڈانس کلب میں بالی وڈ گانوں پر ڈانس کرتے لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا میں بیشتر ملٹی پلیکسز میں ایک یا دو اسکرینز بالی وڈ فلموں کے لئے مخصوص کردی جاتی ہیں۔
اس صورتحال کی ایک دوسری تصویر نیویارک میں رہنے والے فری لانس صحافی، عاصم چھابرا پیش کرتے ہیں۔
اُن کے بقول، ’زیادہ تر امریکی شائقین بھارتی فلمیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں سمجھ آتی ہیں۔ ہاں ’سلم ڈاگ ملینئر‘ جیسی کوئی فلم ریلیز ہوجائے تو وہ ضرور دیکھتے ہیں۔ ساوٴتھ ایشیا کے لوگ ہی بالی وڈ مصالحہ فلموں کے پرستار ہیں۔ خصوصاً فلموں میں دکھائے جانے والے ڈانس اور گانے ان کی دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں۔‘
دو کروڑ 60لاکھ ٹکٹس کی فروخت
بالی وڈ کے ان شائقین کی وجہ سے ہی 2009میں ہالی وڈ فلموں کے مقابلے میں بالی وڈ فلموں کے ایک بلین ٹکٹس زیادہ فروخت ہوئے۔’بلوم برگ‘ کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ بالی وڈ فلموں کے تین کروڑ ساٹھ لاکھ ٹکٹس فروخت ہوئے، جبکہ ہالی وڈ فلموں کے ٹکٹوں کی تعداد دو کروڑساٹھ لاکھ رہی۔
کمال کی بات یہ ہے کہ بالی وڈ کی بڑے سے بڑے بجٹ کی فلم بھی ہالی وڈ کی فلم سے سستی ہی ہوتی ہے۔ شاید یہی سب وجوہات ہیں کہ بالی وڈ فلم میکرز امریکی فلم بینوں کو اپنی طرف کھینچنے اور زیادہ پیسہ کمانے کے لئے بھی اپنا مخصوص فارمولا بدلنے پر تیار نہیں۔
فلم میں ہر وہ مصالحہ موجود ہے جو کسی بھی فلم کی کامیابی کی گارنٹی سمجھا جاتا ہے۔ مثلاً، مسڑ پرفیکشنسٹ عامرخان، تیزرفتار گاڑٰیاں، ہٹ میوزیکل نمبرز، ہاٹ آئٹم سانگز، خوبصورت سرکس پرفارمنسز اور کڑک پولیس افسر۔۔
ایک بھارتی ویب سائٹ ’باکس آفس گرو‘ کے گیتیش پانڈیا نے جو اعداد و شمار جاری کئے ہیں ان کے مطابق ’دھوم3‘ نے اب تک انٹرنیشنل مارکیٹ میں 83ملین ڈالرز سے زیادہ کا بزنس کرلیا ہے، جبکہ امریکی باکس آفس پر فلم 8ملین ڈالرز سے بھی زیادہ کما چکی ہے۔
امریکا میں ہندی فلموں کے 30 لاکھ فلم بین
پانڈیا کا کہنا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں ساوٴتھ ایشیا سے تعلق رکھنے والے آڈئینس کی تعداد بڑھی ہے۔ اب یہ تعداد 30 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ بھارتی کمپنی ’بگ سینماز 2007ءسے اب تک امریکا بھر میں 200 سے زیادہ اسکرینز خرید چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر درمیانے درجے کی مارکیٹس میں واقع ہیں، جہاں بالی وڈ فلمیں پیش کی جاتی ہیں۔ بھارت کے علاوہ پاکستانی اور بنگلہ دیشیوں کی بھی بڑی تعداد فلم دیکھنے کے لئے ان تھیڑز کا رخ کرتی ہے۔
امریکا میں پیدا ہونے والی نسل میں فلموں کا جنون
امریکا میں پیدا ہونے اور یہیں پروان چڑھنے والی نئی نسل بھی بالی وڈ فلموں کا شوق رکھتی ہے۔ وہ ہر نئی فلم دیکھتے بھی ہیں اور فلم سے پہلے ریلیز ہونے والے پروموز کو بھی بھرپور انداز میں انجوائے کرتے ہیں۔ یہاں ڈانس کلب میں بالی وڈ گانوں پر ڈانس کرتے لوگ بھی دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا میں بیشتر ملٹی پلیکسز میں ایک یا دو اسکرینز بالی وڈ فلموں کے لئے مخصوص کردی جاتی ہیں۔
اس صورتحال کی ایک دوسری تصویر نیویارک میں رہنے والے فری لانس صحافی، عاصم چھابرا پیش کرتے ہیں۔
اُن کے بقول، ’زیادہ تر امریکی شائقین بھارتی فلمیں نہ دیکھتے ہیں اور نہ ہی انہیں سمجھ آتی ہیں۔ ہاں ’سلم ڈاگ ملینئر‘ جیسی کوئی فلم ریلیز ہوجائے تو وہ ضرور دیکھتے ہیں۔ ساوٴتھ ایشیا کے لوگ ہی بالی وڈ مصالحہ فلموں کے پرستار ہیں۔ خصوصاً فلموں میں دکھائے جانے والے ڈانس اور گانے ان کی دلچسپی کا مرکز ہوتے ہیں۔‘
دو کروڑ 60لاکھ ٹکٹس کی فروخت
بالی وڈ کے ان شائقین کی وجہ سے ہی 2009میں ہالی وڈ فلموں کے مقابلے میں بالی وڈ فلموں کے ایک بلین ٹکٹس زیادہ فروخت ہوئے۔’بلوم برگ‘ کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ بالی وڈ فلموں کے تین کروڑ ساٹھ لاکھ ٹکٹس فروخت ہوئے، جبکہ ہالی وڈ فلموں کے ٹکٹوں کی تعداد دو کروڑساٹھ لاکھ رہی۔
کمال کی بات یہ ہے کہ بالی وڈ کی بڑے سے بڑے بجٹ کی فلم بھی ہالی وڈ کی فلم سے سستی ہی ہوتی ہے۔ شاید یہی سب وجوہات ہیں کہ بالی وڈ فلم میکرز امریکی فلم بینوں کو اپنی طرف کھینچنے اور زیادہ پیسہ کمانے کے لئے بھی اپنا مخصوص فارمولا بدلنے پر تیار نہیں۔