آسٹریلیا کے وزیراعظم ٹونی ایبٹ نے عہد کیا ہے کہ اس بات کی تحقیقات کی جائے گی کہ کیسے تشدد اور انتہا پسندی کا پس منظر رکھنے والے ذہنی معذور ایرانی نژاد شخص نے سڈنی کے کیفے میں لوگوں کو یرغمال بنانے کی کارروائی کی۔
ہارون مونس نامی شخص نے پیر کو سڈنی میں ایک کیفے میں گھس کر وہاں 17 افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ 50 سالہ مونس اور دو یرغمالی اس وقت مارے گئے جب پولیس کمانڈوز نے کیفے کو واگزار کروانے کے لیے کارروائی کی۔
مونس مجرمانہ پس منظر کا حامل تھا۔ اس پر اپنی سابقہ بیوی کو قتل کرنے کے علاوہ جنسی طور پر ہراساں کرنے کے 40 سے زائد مقدمات بھی درجات تھے۔
بدھ کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیراعظم ٹونی ایبٹ کا کہنا تھا کہ وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ذہنی عدم توازن، تشدد اور انتہا پسندی کا رجحان رکھنے والے مونس کی نگرانی کیوں نہیں کی گئی یا اسے تحویل میں کیوں نہیں رکھا گیا۔
مونس کی طرف سے آسٹریلوی حکومت کے خلاف انٹرنیٹ پر جاری کی گئی متعدد دھمکیوں اور بعض ایسے بیانات جس سے شدت پسند گروہ دولت اسلامیہ کی حمایت ظاہر ہوتی ہے، اس کے باوجود یہ شخص کسی بھی ایسی فہرست میں شامل نہیں تھا جن میں شامل لوگوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں ایک شفاف رپورٹ شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ مونس کیوں زیر نگرانی نہیں تھا اور کیسے ایک شخص بندوق حاصل کرنے کے قابل ہوا۔
مونس دو دہائیوں قبل ایران سے آسٹریلیا آیا تھا اور اس نے یہاں یہ کہہ کر پناہ لی تھی کہ اسے وہاں اذیت کا سامنا کرنا پڑا۔