’سنگ دل باپ کی جانب سے دئے گئے بچوں کو تیزاب کے زخم تو بھرگئے ہیں، مگر رقیہ کا جھلسا ہوا حال اسکے ساتھ پیش آنے والے سنگین واقعے کی کہانی سنا رہا ہے‘
پاکستان میں خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات میں دن بدن اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
خواتین پر ذہنی و جسمانی تشدد ہمارے معاشرے کا دیرینہ مسئلہ رہا ہے، ایسے میں جلائے جانے اور تیزاب گردی جیسے واقعات میں اضافہ تشویش کا باعث ہے۔۔
کراچی کے علاقے نصرت بھٹو کالونی کی رہائشی رقیہ بانو کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جس میں گھریلو جھگڑے کے باعث اس کے شوہر نے اس سمیت اپنے تینوں بچوں پر تیزاب پھینک دیا اور فرار ہوگیا۔
بھٹو کالونی کے مکان میں پیش آنے والے اس دردناک واقعے کو آج کئی ماہ بیت چکے ہیں، سنگ دل باپ کی جانب سے دئے گئے بچوں کو تیزاب کے زخم تو بھر گئے ہیں مگر رقیہ کا جھلسا ہوا حال اسکے ساتھ پیش آنے والے سنگین واقعے کی کہانی سنا رہا ہے۔
تیزاب سے جھلسی ہوئی رقیہ کراچی کے سول اسپتال کے برنس سینٹر میں زیر علاج ہے۔
30 سالہ رقیہ کا سر، چہرہ، دونوں ہاتھ اور جسم کا اوپری حصہ تیزاب سے بری طرح جھلسا ہوا ہے، جبکہ رقیہ کی ایک آنکھ بھی تیزاب سے شدید متاثر ہوئی جس کے باعث بینائی بھی کمزور ہوگئی ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق، تیزاب پھینکے جانے کے اس واقعے کے بعد جب ایمرجنسی میں رقیہ کو لایا گیا تو اس کی ایک آنکھ بھی جل کر باہر نکل آئی، جس کے بعد سرجری اور علاج سے اس کو کچھ حد تک ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسپتال کے بستر پر لیٹی رقیہ اپنی غمناک کہانی بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ، ’شوہر نے پیسوں کی خاطر مجھے اور میرے بچوں کو تیزاب سے جلایا ہے‘۔
مبینہ طور پر اُن کا شوہر نشے کا عادی ہے اور کوئی کام کاج نہیں کرتا۔
رقیہ کا کہنا ہے کہ وہ گھروں میں جاکر کام کرکے اپنے بچوں اور شوہر کو پالتی رہی۔
اُن کے بقول، وہ روز مجھ سے نشے کے پیسے مانگتا اور مار پیٹ کرتا تھا۔ ایک دن پیسے ختم ہو جانے پر، میں نے پیسے نہیں دئے تو اس نے سوتے میں تیزاب پھینک دیا۔
رقیہ کی ماں نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ رقیہ کے شوہر کی خلاف تھانے میں رپورٹ درج کئے بھی کئی مہینے گزر گئے، مگر پولیس ابھی تک اسکے شوہر کو گرفتار نہیں کرسکی۔
رقیہ کا مطالبہ ہے کہ اس کے شوہر کو عمر قید کی سزا سنائی جائے۔
’کراچی برنس سینٹر‘ کے اعلیٰ اہل کار، دبیر الرحمان نے بتایا کہ، ’خواتین پر تشدد اور جلائے جانے کے بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں، مگر ان کے ملزمان کے خلاف قانون سازی کمزور ہونے سے سزا نہیں ہوتی۔ ریاستی اداروں کو قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد کی بھی سخت ضرورت ہے۔‘
تیزاب کی فروخت پر پابندی، سول سوسائٹی کا مطالبہ
حقوق نسواں کیلئے سرگرم تنظیم ’عورت فاوٴنڈیشن‘ کی ڈائریکٹر مہناز رحمان نے بتایا کہ، ’تیزاب پھینکنے سے متعلق اقدامات اور قوانین تو بنائے گئے ہیں، مگر سب سے اہم چیز تیزاب کی خرید و فروخت کی روک تھام کرنا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حقوق نسواں کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کا مطالبہ ہے کہ، ’تیزاب کی فروخت پر پابندی لگائی جائے۔ اسے بغیر لائسنس کے نہ بیچا جائے۔ اس کی فروخت کیلئے بھی سخت قوانین بنائے جائیں اور کھلے عام فروخت کو روکا جائےتو کسی حد تک تیزاب سے جلانے کے واقعات ختم ہو سکتے ہیں۔‘
خواتین پر تیزاب پھینکنے کے خلاف بل منظور
خواتین پر تیزاب پھینکے کے واقعات کے خاتمے کیلئے گزشتہ دور حکومت میں تیزاب پھینکنے کا قانون منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت، تیزاب پھینکنے والے پر 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔
کراچی برنس سینٹر
کراچی کے سول اسپتال کا برنس سینٹر ملک کا واحد سرکاری ادارہ ہے جو جھلسے ہوئے مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ گذشتہ چھ برس کے دوران کراچی کے برنس سینٹر میں ملک کے مختلف حصوں سے تیزاب سے متاثرہ 44 خواتین کا علاج کیا گیا، جبکہ آگ سے جلنے کے 1928 واقعات کی شکار خواتین کو علاج کے لیے یہاں لایا گیا۔
خواتین پر ذہنی و جسمانی تشدد ہمارے معاشرے کا دیرینہ مسئلہ رہا ہے، ایسے میں جلائے جانے اور تیزاب گردی جیسے واقعات میں اضافہ تشویش کا باعث ہے۔۔
کراچی کے علاقے نصرت بھٹو کالونی کی رہائشی رقیہ بانو کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا، جس میں گھریلو جھگڑے کے باعث اس کے شوہر نے اس سمیت اپنے تینوں بچوں پر تیزاب پھینک دیا اور فرار ہوگیا۔
بھٹو کالونی کے مکان میں پیش آنے والے اس دردناک واقعے کو آج کئی ماہ بیت چکے ہیں، سنگ دل باپ کی جانب سے دئے گئے بچوں کو تیزاب کے زخم تو بھر گئے ہیں مگر رقیہ کا جھلسا ہوا حال اسکے ساتھ پیش آنے والے سنگین واقعے کی کہانی سنا رہا ہے۔
تیزاب سے جھلسی ہوئی رقیہ کراچی کے سول اسپتال کے برنس سینٹر میں زیر علاج ہے۔
30 سالہ رقیہ کا سر، چہرہ، دونوں ہاتھ اور جسم کا اوپری حصہ تیزاب سے بری طرح جھلسا ہوا ہے، جبکہ رقیہ کی ایک آنکھ بھی تیزاب سے شدید متاثر ہوئی جس کے باعث بینائی بھی کمزور ہوگئی ہے۔
ڈاکٹروں کے مطابق، تیزاب پھینکے جانے کے اس واقعے کے بعد جب ایمرجنسی میں رقیہ کو لایا گیا تو اس کی ایک آنکھ بھی جل کر باہر نکل آئی، جس کے بعد سرجری اور علاج سے اس کو کچھ حد تک ٹھیک کرنے کی کوشش کی گئی۔
اسپتال کے بستر پر لیٹی رقیہ اپنی غمناک کہانی بتاتے ہوئے کہتی ہیں کہ، ’شوہر نے پیسوں کی خاطر مجھے اور میرے بچوں کو تیزاب سے جلایا ہے‘۔
مبینہ طور پر اُن کا شوہر نشے کا عادی ہے اور کوئی کام کاج نہیں کرتا۔
رقیہ کا کہنا ہے کہ وہ گھروں میں جاکر کام کرکے اپنے بچوں اور شوہر کو پالتی رہی۔
اُن کے بقول، وہ روز مجھ سے نشے کے پیسے مانگتا اور مار پیٹ کرتا تھا۔ ایک دن پیسے ختم ہو جانے پر، میں نے پیسے نہیں دئے تو اس نے سوتے میں تیزاب پھینک دیا۔
رقیہ کی ماں نے ’وی او اے‘ کو بتایا کہ رقیہ کے شوہر کی خلاف تھانے میں رپورٹ درج کئے بھی کئی مہینے گزر گئے، مگر پولیس ابھی تک اسکے شوہر کو گرفتار نہیں کرسکی۔
رقیہ کا مطالبہ ہے کہ اس کے شوہر کو عمر قید کی سزا سنائی جائے۔
’کراچی برنس سینٹر‘ کے اعلیٰ اہل کار، دبیر الرحمان نے بتایا کہ، ’خواتین پر تشدد اور جلائے جانے کے بہت سے واقعات سامنے آتے ہیں، مگر ان کے ملزمان کے خلاف قانون سازی کمزور ہونے سے سزا نہیں ہوتی۔ ریاستی اداروں کو قوانین بنانے کے ساتھ ساتھ ان پر عملدرآمد کی بھی سخت ضرورت ہے۔‘
تیزاب کی فروخت پر پابندی، سول سوسائٹی کا مطالبہ
حقوق نسواں کیلئے سرگرم تنظیم ’عورت فاوٴنڈیشن‘ کی ڈائریکٹر مہناز رحمان نے بتایا کہ، ’تیزاب پھینکنے سے متعلق اقدامات اور قوانین تو بنائے گئے ہیں، مگر سب سے اہم چیز تیزاب کی خرید و فروخت کی روک تھام کرنا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حقوق نسواں کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کا مطالبہ ہے کہ، ’تیزاب کی فروخت پر پابندی لگائی جائے۔ اسے بغیر لائسنس کے نہ بیچا جائے۔ اس کی فروخت کیلئے بھی سخت قوانین بنائے جائیں اور کھلے عام فروخت کو روکا جائےتو کسی حد تک تیزاب سے جلانے کے واقعات ختم ہو سکتے ہیں۔‘
خواتین پر تیزاب پھینکنے کے خلاف بل منظور
خواتین پر تیزاب پھینکے کے واقعات کے خاتمے کیلئے گزشتہ دور حکومت میں تیزاب پھینکنے کا قانون منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت، تیزاب پھینکنے والے پر 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔
کراچی برنس سینٹر
کراچی کے سول اسپتال کا برنس سینٹر ملک کا واحد سرکاری ادارہ ہے جو جھلسے ہوئے مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ گذشتہ چھ برس کے دوران کراچی کے برنس سینٹر میں ملک کے مختلف حصوں سے تیزاب سے متاثرہ 44 خواتین کا علاج کیا گیا، جبکہ آگ سے جلنے کے 1928 واقعات کی شکار خواتین کو علاج کے لیے یہاں لایا گیا۔