افغانستان میں عہدیداروں کے مطابق ملک کے جنوب مشرق میں طالبان کے مخالف دھڑوں میں لڑائی کے باعث دونوں جانب کے لگ بھگ 47 جنگجو ہلاک ہو چکے ہیں۔
افغان عہدیداروں نے پیر کو بتایا کہ یہ لڑائی گزشتہ تین روز سے جاری ہے۔
صوبہ زابل کے گورنر کے ترجمان کے مطابق طالبان کے مخالف دھڑوں میں لڑائی کے دوران 50 سے زائد افراد زخمی بھی ہوئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے طالبان کے کچھ سینیئر کمانڈروں نے ملا محمد رسول کو اپنے دھڑے کا سربراہ بنایا ہے۔ اطلاعات کے مطابق طالبان کے دور حکومت میں 1996 سے 2001 کے دوران ملا محمد رسول صوبہ زابل کے گورنر رہے۔
ملا محمد رسول اور اُن کے ساتھی ملا اختر منصور کے مخالف ہیں۔ واضح رہے کہ رواں سال جولائی میں طالبان کے قائد ملا عمر کے انتقال کی خبر سامنے آنے کے بعد ملا اختر منصور کو تحریک کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
لیکن اُس وقت بھی طالبان کے کئی سینیئر کمانڈروں نے ملا اختر منصور کی مخالفت کی تھی جن میں ملا عمر کے بیٹے اور بھائی بھی شامل تھے۔
لیکن بعد میں ملا عمر کے بیٹے ملا یعقوب اور بھائی ملا منان نے ملا اختر منصور کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
طالبان نے ایک بیان میں انکشاف کیا تھا کہ ملا عمر کا انتقال 2013ء میں ہو چکا تھا لیکن اس خبر کو مصلحتاً پوشیدہ رکھا گیا۔
اطلاعات کے مطابق جس علاقے میں لڑائی ہوئی وہاں پیر کی صبح کچھ وقت کے لیے عارضی طور پر جھڑپوں کو روکنے پر اتفاق کیا گیا تاکہ ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو وہاں سے منتقل کیا جا سکے۔
بتایا جاتا ہے کہ طالبان کے نئے بننے والے دھڑے کو شدت پسند گروپ ’داعش‘ کے جنگجوؤں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
اُدھر خبر رساں ادارے ’روئیٹرز‘ نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ داعش کے جنگجوؤں نے اغوا کیے گئے سات افراد کو صوبہ زابل میں قتل کر دیا جن میں تین خواتین بھی شامل ہیں۔
حکام کے مطابق ان افراد کو پڑوسی صوبے غزنی سے اغوا کیا گیا تھا۔
شام اور عراق کے وسیع علاقے پر قابض شدت پسند گروپ ’داعش‘ کے جنگجو افغانستان خصوصاً صوبہ ننگر ہار میں اپنے قدم جما رہے ہیں۔
حکام کے مطابق ’داعش‘ کے خلاف ننگر ہار میں حال ہی میں افغان فورسز نے ملک میں موجود امریکی افواج کے تعاون سے کارروائی کی۔