300 سے زیادہ قیدیوں کے انٹرویوز پر مبنی اقوامِ متحدہ کی اس تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان نیشنل ڈائریکٹریٹ آف سیکورٹی اور افغان نیشنل پولیس کے زیر انتظام چلنے والی حوالاتوں میں قیدیوں کو بڑے پیمانے پر اذیتیں دی جاتی ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مشن کو پتہ چلا کہ پولیس اور انٹیلی جنس کے افسروں کا یہ معمول ہے کہ وہ قیدیوں کو بجلی کے جھٹکے دیتے ہیں، ان کے پیروں کے ناخن کھینچتے ہیں، اور ان کے ساتھ جنسی زیادتیاں کرتے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ زیادتیاں اتنی کثرت سے ہونے لگیں کہ جولائی میں، امریکہ اور نیٹو کی فوجوں نے کئی صوبوں میں مشتبہ طالبان کو افغان حکومت کے زیرِ انتظام قید خانوں کے حوالے کرنا بند کر دیا۔
افغان حکومت نے ان میں سے بد ترین الزامات کی صحت سے انکار کیا ہے لیکن کہا ہے کہ اس کے قیدیوں کو رکھنے کے نظام میں کچھ نقائص موجود ہیں۔
افغانستان میں پولیس اور سیکورٹی کی تربیت کا کام امریکی اور اتحادی افواج کر رہی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے ٹام مالنوسکی کہتے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ نے امریکہ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔’’اس رپورٹ میں صاف طور سے افغانستان کی انٹیلی جنس سروس اور پولیس کے بعض یونٹوں کو ملوث کیا گیا ہے۔ لہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان یونٹوں کو اپنے معاملات ٹھیک کرنا ہوں گے۔ اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے امریکی سفارت خانے کو افغان حکومت کے ساتھ مل کر سخت محنت کرنا ہوگی۔ صرف اسی صورت میں امریکی امداد جاری رہ سکتی ہے۔‘‘
جیسا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے، اذیت رسانی اور بد سلوکی کے نتیجے میں وہ قانون موئثر ہو سکتا ہے جسے لیاہےلا کہا جاتا ہے۔ اس قانون میں ،جس کے اسپانسر سینیٹر پیٹرک لیاہے لا تھے، صراحت کی گئی ہے کہ اگر کسی ملک کا کوئی یونٹ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرتا ہے تو امریکہ کو اس کے فنڈز، ٹریننگ اور ہتھیاروں کی فراہمی منقطع کرنی ہوگی۔
مالنوسکی کہتے ہیں کہ اوباما انتظامیہ کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس قانون کی شقوں کا اطلاق کرے۔’’انہیں اس قانون کا اطلاق کرنا پڑے گا۔ قانون کے تحت ان کے لیے ایسا کرنا لازمی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایسا کریں گے کیوں کہ ثبوت اتنے واضح ہیں۔‘‘
یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے مائیک گیرہارٹ کہتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ افغانستان کے لیے اپنی سیکورٹی کی امداد منقطع کر دے گا بلکہ صرف مخصوص یونٹوں کے لیے امداد منقطع کی جائے گی۔
’’اگر آپ اس کے لفظی معنی لیں، تو اس کا تعلق اس مخصوص یونٹ کی امداد ختم کرنے سے ہو گا جس نے خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس کا تعلق کسی مخصوص چیز سے ہو سکتا ہے، اور پیسہ کسی اور طرف منتقل کیا جا سکتا ہے ۔ لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ قانون کتنا موئثر ہو گا۔‘‘
لیکن اس قانون میں ایک ابہام ہے جسے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کی امداد منقطع کرنے کی شقوں پر عمل در آمد روکا جا سکتا ہے اگر امریکی وزیرِ خارجہ اس نتیجے پر پہنچیں کہ متعلقہ حکومت حالات کو درست کرنے کے اقدامات کر رہی ہے۔
مائیک گیرہارٹ کہتے ہیں’’یہ ایسا فیصلہ ہوگا جو بیک وقت قانونی ہوگا اور سیاسی بھی۔ ظاہر ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہیں گے کہ جو کچھ وہ کر رہےہیں وہ قانون کے مطابق ہے۔ اس کے ساتھ ہی، انہیں اپہنے فیصلوں کے سیاسی مضمرات کو بھی مد نظر رکھنا ہو گا۔‘‘
ٹام مالنوسکی کہتے ہیں کہ پوری افغان انٹیلی جنس سروس کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے ، لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر اسے ملنے والی امداد سی آئی اے اور دوسری انٹیلی جنس ایجنسیوں سے آتی ہے تو پھر ان کی جان بچ جائے گی۔’’میرے خِیال میں لیاہے لا کے تحت سیکورٹی کی ڈائریکٹریٹ کو ایک یونٹ سمجھا جائے گا۔ جو بات واضح نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اس ڈائریکڑیٹ کو کس قسم کی امداد ملتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اس کو ملنے والی امداد کا تعلق محکمۂ خارجہ یا محکمۂ دفاع کے بجٹ سے نہ ہو۔‘‘
امریکی عہدے دار کہتے ہیں کہ کابل میں امریکی سفارت خانہ افغان حکومت کے تحت چلنے والے حراستی مراکز کی نگرانی کا ایک نظام وضع کر رہا ہے ۔ نیٹو کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ بد سلوکی کو روکنے کے لیے اتحادی افسران امریکہ کے ساتھ مل کر، نئے حفاظتی اقدامات قائم کر رہے ہیں۔