پاکستان میں افغانستان کے سفیر جانان موسیٰ زئی نے متنبہ کیا ہے کہ اُن کے ملک میں اگر امن کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں تو اس سے نہ صرف خطے کی سلامتی کو خطرہ ہو گا بلکہ ان حالات میں داعش جیسی انتہاپسند تنظیموں کو اپنی سرگرمیوں کو بڑھانے کا موقع بھی ملے گا۔
تاہم انہوں نے کہا کہ افغان امن عمل کی بحالی کے لیے چار فریقی کوششیں افغانستان اور خطے میں امن کے قیام کے لیے ایک اہم موقع ہیں، جسے گنوانا نہیں چاہیئے۔
افغان سفیر جانان موسیٰ زئی نے یہ بات بدھ کو اسلام آباد کے سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے ادارے،’انسٹی ٹیوٹ آف اسٹریٹجک اسٹڈیز‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
ان کے بقول ’’خدا نہ کرے اگر ہم نے افغانستان میں تشدد کو کم کرنے اور اس کے حتمی خاتمے کا موقع گنوا دیا تو اس سے نا صرف افغانستان میں بلکہ اس خطے میںسلامتی کے چیلنجز اور تشدد میں بہت زیادہ اضافہ ہو گا بلکہ اس کی وجہ سے داعش جیسی انتہا پسند تنظمیوں کو پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا۔‘‘
تاہم سفیر موسیٰ زئی نے کہا کہ افغان امن عمل کی بحالی کے چار فریقی عمل میں امریکہ اور چین کی شمولیت سے امن عمل میں واضح پیش رفت متوقع ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’دوبارہ شروع ہونے والے امن عمل میں ہمارے دو اہم اتحادی اور اسٹریٹیجک شراکت دار ملک امریکہ اور چین کی موجودگی سے اعتماد میں اضافہ ہو گا ۔۔۔۔ لیکن اس کے لیے مسلسل خلوص کی ضرورت کے ساتھ ساتھ فوری اقدامات اور عمل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔‘‘
افغان امن عمل کی بحالی کے لیے چار فریقی اجلاس رواں ہفتے اسلام آباد میں ہوا تھا، جس میں پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے طالبان سے مذاکرات کے بارے میں بات چیت کی گئی اور اس ضمن میں آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
ان چار ملکوں کا آئندہ اجلاس رواں ماہ کے 18 تاریخ کو کابل میں ہو گا۔
پاکستان کا موقف ہے کہ افغان امن عمل افغانوں کی قیادت میں ہونا چاہیئے اور اس میں پاکستان، امریکہ اور چین کا کردار سہولت کار کا ہے۔
گزشتہ سال جولائی میں پاکستان نے افغان حکومت اور طالبان کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی تھی اور اس کا دوسرا دور جولائی میں طے تھا جو طالبان کے امیر ملا عمر کی موت کی خبر منظر عام پر آنے کے بعد تعطل کا شکار ہو گیا۔