افغانستان میں پچھلے سال جن پانچ بنگلہ دیشی کارکنوں کو یرغمال بنایا گیا تھا، اغواکاروں سے پچھلے ہفتے رہائی پانے کے بعد اتوار کےر وز اپنے گھروں میں پہنچ گئے۔
ان کی آمد کے موقع پر بڑے جذباتی مناظر دیکھنے میں آئے۔ ان کےخیرمقدم کے لیے لوگوں کی ایک بڑی تعداد جمع تھی اور ان کے عزیز و اقارب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ انہوں نے لوگوں کو بتایا کہ اغوا کار انہیں زیادہ تر بھوکار کھتے تھے اور رات کے وقت زنجیروں سے باندھ دیتے تھے۔
رہائی پانے والے ایک کارکن محبوب علی نے نامہ نگاروں کو ڈھاکہ ایئرپورٹ پر بتایا کہ اپنی اسیری کے دوران انہیں کسی جسمانی تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا لیکن انہیں جن جگہوں پر رکھا گیاتھا وہ بہت خوف ناک تھیں۔
جب وہ طیارے سے باہر آئے توبنگلہ دیش کی وزیر خارجہ دیپومونی نے انہیں خوش آمدید کہا۔ انہوں نے نامہ نگاروں سے کہا کہ انہیں معلوم نہیں ہے کہ آیا ان کی رہائی کے لیے افغان قبائلی سرداروں اور یرغمال بنانے والوں کے درمیان مذاکرات کے بعد کوئی تاوان ادا کیا گیاتھا یا نہیں ۔
دسمبر 2010ء میں شمالی صوبے بلخ کے صدر مقام مزار شریف کے قریب اغواکاروں نےجنوبی کوریا کی ایک تعمیراتی کمپنی کے کارکنوں کے کیمپ پر حملہ کرکے سات بنگلہ دیشی اہل کاروں کواغوا کرلیاتھا۔ایک بنگلہ دیشی حملے کے دوران ہلاک ہوگیاتھا جب کہ دوسرا چند دن پہلے رہا کردیا گیاتھا۔
کسی گروپ نے ان کے اغوا کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ نہیں کیا۔