امریکی محکمہ دفاع نے کہا ہے کہ ماضی قریب کی نسبت اس وقت افغان شہری ملک میں خود کو کم محفوظ تصور کرتے ہیں جب کہ شہری جانی نقصان کی شرح سات سالوں کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔
یہ بات پینٹاگان نے افغانستان میں سلامتی کی صورتحال سے متعلق جمعہ کو دیر گئے جاری کردہ اپنی رپورٹ میں بتائی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسے میں جب افغان حکومت "آبادی کے تمام بڑے مراکز اور کلیدی مواصلات کا" کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے "مزاحم عسکریت پسندی" ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرتی جا رہی ہے۔
افغان شہریوں کے کیے گئے ایک سروے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے ہاں سلامتی کا تصور اس وقت سب سے کم شرح پر ہے۔ 42 فیصد شہریوں کا کہنا تھا کہ اس وقت سلامتی صورتحال 1996ء سے 2001ء تک طالبان کے دور حکومت سے بھی زیادہ خراب ہے۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کا معاون مشن 2009ء سے افغان شہریوں کے جانی نقصان پر نظر رکھے ہوئے اور اس کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال اس میں تاریخی اضافہ ہوا۔
مشن نے متنبہ کیا تھا کہ گنجان آباد علاقوں تک پہنچنے والی لڑائی اور خودکش حملوں کی وجہ سے رواں سال کے پہلے حصے میں شہری جانی نقصان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
رواں ماہ کے اوائل میں وائٹ ہاؤس نے طالبان کے خلاف کارروائیوں کے لیے افغانستان میں موجود اپنے فوجیوں کو مزید اختیارات تفویض کیے تھے۔ ان اختیارات کی درخواست امریکی فوجی کمانڈروں نے کی تھی۔