طالبان شدت پسندوں نے افغان دارالحکومت کابل میں منگل کو جاری حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے، جن میں امریکی سفارت خانہ، بین الاقوامی افواج کے ہیڈ کوارٹرز اور افغان حکومت کی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان حملوں میں کم از کم سات افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
منگل کی رات دیر گئے علاقے میں فائرنگ اور کئی دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں سنی گئی ہیں۔
افغان پولیس کا کہنا ہے کہ کم از کم چار حملہ آوروں نے کابل کے عبدل الحق اسکوائر میں زیر تعمیر ایک کئی منزلہ عمارت پر قبضہ کرکے نیٹو کے ہیڈ کوارٹرز اور امریکی سفارت خانے پر فائرنگ شروع کردی۔ اسکے علاوہ دو مزید خودکش بمباروں نے مغربی کابل میں پولیس بلڈنگز پر حملہ کردیا۔
امریکی سفارت خانے اور نیٹو حکام کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں انکا کوئی اہلکار زخمی نہیں ہوا۔
افغان پولیس کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں انکے چار اہلکار کے علاوہ تین شہری بھی ہلاک ہوئے ہیں۔
افغان صدر حامد کرزئی نے ان حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حملے افغانستان میں سلامتی کی ذمہ داریوں کے تبادلہ پر اثر انداز نہیں ہوسکتے۔ بلکہ ان سے افغان عوام کے اپنے معاملات اپنے ہاتھوں میں لینے کے عزم کو مزید تقویت ملے گی۔
واشنگٹن میں سی آئی ڈائریکٹر ڈیوڈ پیٹریس نے امریکی قانون سازوں کو بتایا کہ ایک راکٹ سے پھینکا گیا ایک گرینیڈ امریکی سفارت خانے پر داغا گیا جس سے چار افغان جو کہ وہاں ویزے لینے کے لیے آئے تھے، زخمی ہوگئے۔
امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے کہا ہے کہ امریکہ اس علاقے کو محفوظ بنانے کی کوشش کررہا ہے اور ان حملوں کے ذمہ داروں سے نمٹا جائیگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی شہری افغانیوں کے ساتھ ذمہ داریوں کے تبادلے پر کام کررہے ہیں اور ان بزدلانہ حملوں سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے کہا کہ منگل کے حملے کسی بھی طرح امریکہ کو سلامتی کی ذمہ داریوں کے تبادلے کے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹاسکتے۔
اطلاعات کے مطابق تشدد کی یہ کارروائیاں کابل کے ایک وسطی علاقے میں ہو رہی ہیں جہاں کئی ملکوں کے سفارت خانے موجود ہیں۔
طالبان نے کہا ہے کہ اُنھوں نے سرکاری عمارتوں اور ملک کی انٹیلی جنس سروس کے دفاتر پر ’’بڑا خودکش حملہ‘‘ کیا ہے۔
منگل کو یہ حملہ ایک ایسے وقت کیا گیا ہے جب چند روز قبل ہی وسطی افغانستان میں نیٹو کے ایک اڈے پر خودکش ٹرک بم حملے میں چار افغان شہری ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے جن میں 77 امریکی فوجی بھی شامل تھے۔