افغان حکومت کا علاقوں پر کنٹرول بتدریج کم ہوا: رپورٹ

امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے علاقوں پر فورسز کے کنٹرول سے متعلق "سگار" کی رپورٹ کو مسترد کیا تھا۔

افغانستان میں تعمیر نو کے امریکی حکومت کے ایک اعلیٰ ترین نگران ادارے کا کہنا ہے کہ افغان حکومت کا کنٹرول بمشکل جنگ سے تباہ حال اس ملک کے نصف پر قائم ہے، اس کی سکیورٹی فورسز کو عسکریت پسندوں کے مقابلے میں بتدریج کمی کا سامنا ہے جب کہ منشیات کی پیداوار میں اضافہ اور اس کے خاتمے میں تنزلی دیکھی جا رہی ہے۔

اسپیشل انسپکٹر جنرل فار افغان ری کنسٹرکشن (سگار) کے دفتر سے گزشتہ تین ماہ کی جائزہ رپورٹ بدھ کو جاری کی گئی جس کے مطابق نومبر کے وسط تک افغان حکومت کا ملک کے 407 اضلاع میں سے صرف 57.2 فیصد پر کنٹرول یا اثر و رسوخ تھا جو کہ گزشتہ اگست کے مقابلے میں 6.2 فیصد جب کہ گزشتہ برس کی نسبت 15 فیصد کم تھا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس وقت افغانستان کی ایک تہائی یا 92 لاکھ آبادی "لڑائی والے علاقوں میں مقیم ہے" اور 25 لاکھ لوگ عسکریت پسندوں کے زیر اثر علاقوں میں رہ رہے ہیں۔ نومبر سے قبل کی سہ ماہی میں یہ تعداد 29 لاکھ تھی۔

بظاہر اس تعداد میں کمی کی وجہ خراب صورتحال کے باعث لوگوں کی نقل مکانی ہو سکتی ہے۔ اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق گزشتہ سال تقریباً چھ لاکھ 40 ہزار افغانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔

اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد (فائل فوٹو)

امریکی خبر رساں ایجنسی کے مطابق افغان وزارت دفاع کے ترجمان دولت وزیری نے علاقوں پر فورسز کے کنٹرول سے متعلق "سگار" کی رپورٹ کو مسترد کیا تھا۔

اس رپورٹ کی نقول گزشتہ ہفتے ہی صحافیوں کو فراہم کر دی گئی تھیں لیکن بدھ تک اس کے جاری کرنے پر ممانعت تھی۔

اتوار کو ایک پریس کانفرنس کے دوران پوچھے گئے سوال پر دولت وزیری کا کہنا تھا کہ "تمام 34 صوبے افغان حکومت کے کنٹرول میں ہیں۔۔۔ صرف آٹھ اضلاع پر طالبان عسکریت پسندوں کا قبضہ ہے۔"

مزید برآں رپورٹ میں افغان سکیورٹی فورسز کے جانی نقصان میں گزشتہ سال کی نسبت 35 فیصد اضافے کا بتاتے ہوئے کہا گیا کہ امر اس جانب نشاندہی کرتا ہے کہ افغان حکومت اور سکیورٹی فورسز کو مسلسل معاونت کی ضرورت ہے اور یہ امداد کے بغیر برقرار نہیں رہ سکتیں۔

سگار کی یہ تازہ سہ ماہی رپورٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی منصب صدارت سنبھالنے کے بعد سامنے آئی ہے۔

قندھار میں پوست کی فصل سے نوجوان گزر رہا ہے۔ (فائل فوٹو)

ادارے کا کہنا تھا کہ افغانستان میں 2016ء میں افیون کی پیداوار 2015ء کی نسبت 43 فیصد زیادہ رہی۔ اس کے اندازوں کے مطابق گزشتہ برس افغان کسانوں نے پوست کی فصل سے تقریباً 4800 ٹن افیون حاصل کی۔

امریکی ادارے کی رپورٹ میں جس واحد معاملے میں بہتری کا تذکرہ کیا گیا وہ یہ تھا کہ سرکاری سطح پر سامان کی خریدار اور سہولتوں کی فراہمی میں بدعنوانی کم ہوئی ہے۔