افغانستان میں افیون استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں گزشتہ پانچ سالوں کے دوران 53 فیصد اضافہ ہو ا ہے اور اس وقت ملک کی کل آبادی کا آٹھ فیصد حصہ یعنی دس لاکھ لوگ نشے کی عادت میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
یہ انکشاف اقوام متحدہ کے انسداد منشیات کے ادارے UNODC اورافغان حکومت کے ایک مشترکہ سروے میں کیا گیا ہے جس کی تفصیلات پیر کو کابل میں جاری کی گئیں۔
سروے کے مطابق اس وقت ملک میں افیون کا باقاعدہ استعمال کرنے والے افغانوں کی تعداد دو لاکھ 30ہزار( 230,000 )ہے جو کہ 2005ء میں ایک لاکھ 50 ہزار تھی، جب کہ ہیروئن کا نشہ کرنے والے افراد کی تعداد 140 فیصد اضافے کے بعد ایک لاکھ 20 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسداد منشیات کے ادارے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اینٹونیوماریا کوسٹا نے کہا ہے کہ تین دہائیوں تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد نفسیاتی دباؤ، سستی منشیات کی بے حساب دستیابی اور علاج و معالجے تک محددو رسائی نے افغانستان میں نشے کی عادت کے ایک بڑے اور تیزی سے پھیلے ہو ئے مسئلے کو جنم دیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ رپورٹ میں سب سے زیادہ چونکا دینے والا انکشاف دوا خریدنے کی استطاعت نہ رکھنے والے والدین کا اپنے بچوں کو درد سے نجات دلانے کے لیے دوا کے طور پر افیوں کھلانا ہے جبکہ 50 فیصد نشے کے عادی والدین بھی اپنے بچوں کو افیون دیتے ہیں۔ سروے رپورٹ کے مطابق یہ ایک انتہائی تشویش ناک ہے امر ہے کیونکہ اس کی وجہ سے افغانوں کی اگلی نسل عمر بھر نشے کی عادی رہے گی۔
سروے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی افغان باشندے روز مرہ کی پریشانیوں سے فرار کے لیے منشیات کا استعمال کر رہے ہیں جب کہ انجکشن کے ذریعے منشیات کے استعمال میں اضافے کے علاوہ پیسے اور منشیات کے بدلے جنسی کاروبار کے سبب ملک میں ایڈز اور دیگر مہلک بیماریاں بھی پھیل رہی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات لاکھ سے زائد افغانوں کو نشے کے علاج تک رسائی نہیں۔
افغانستان میں پولیس اہلکاروں میں بھی منشیات کے استعمال میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور رپورٹ کے مطابق ایسے اہلکاروں
کی تعداد12سے 40 فیصد کے درمیان ہے۔ اقوام متحدہ کے رپورٹ میں نشے کے عادی افراد کے علاج کے لیے خصوصی مراکز کے قیام اور افغانستان میں منشیات کی پیداوار کے خاتمے کے لیے کی جانے والی بین الاقوامی کوششوں کو زیادہ موثر بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔