افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے عسکریت پسندوں کے خلاف بین الاقوامی افواج کی جنگی حکمتِ عملی پر ایک بار پھر کڑی تنقید کی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ موجودہ حکمتِ عملی غیر موثر ہے جس سے افغان شہریوں کی ہلاکتوں کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے۔
صدر کرزئی نے ان خیالات کا اظہار جرمن پارلیمنٹ کے سپیکر نوربرٹ لیمر سے کابل میں اتوار کو ہونے والی ایک ملاقات میں کیا۔اُن کے بقول افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف حکمتِ عملیوں کا ازسرِ نو جائزہ لینا جنگ سے تباہ حال ملک کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
گزشتہ ہفتے بھی افغان صدر نے ایک ایسا ہی تنقیدی بیان دیتے ہوئے کہا تھا کہ نیٹو اور افغان افواج دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پس وپیش کا مظاہرہ کر رہی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نیٹو فوجوں کی کارروائیوں میں افغان شہریوں کی ہلاکتیں اور پاکستان میں عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کی بدستور موجودگی افغانستان میں لڑی جانے والی جنگ میں پیش رفت نہ ہونے کی بڑی وجوہات ہیں ۔مزید برآں صدر کرزئی کا کہنا تھا کہ جولائی 2011 ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کا عمل شروع کرنے کے اعلان نے بھی عسکریت پسندوں کے” حوصلے بلند“ کیے ہیں۔
گزشتہ ماہ ایک بیان میں صدر کرزئی نے پاکستان میں موجود عسکریت پسندوں کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی میں پس وپیش کا مظاہرہ کرنے پر بھی افغانستان کے مغربی اتحادیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِن شورش پسند قوتوں کے خلاف صرف بین الاقوامی افواج ہی کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ افغان صدر کے بقول” دہشت گردی کے خلاف جنگ افغانستان کے گھروں اور دیہاتوں میں نہیں بلکہ ملک سے باہر موجود دہشت گردوں کی پناہ گاہوں اور تربیتی مراکز میں ہے“۔