مشرقی افغانستان میں ہفتے کے روز دیہاتیوں اور رشتے داروں نے ایک روز قبل شیعہ مسجد میں خودکش حملے اور خودکار ہتھیاروں سے گولیاں چلانے کے لرزہ خیز دہشت گرد واقع میں ہلاک ہونے والے 35 نمازیوں کی تدفین کی اجتماعی رسومات میں شرکت کی۔
’وائس آف امریکہ‘ کی افغان زبان سے وابستہ سروس کے ایک نمائندے نے بتایا ہے کہ صوبہٴ پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں سخت سکیورٹی میں اجتماعی تدفین کی رسومات منعقد ہوئیں، جس میں ہزاروں افراد شریک تھے، جہاں جمعے کے روز قتل عام کا یہ واقع پیش آیا تھا۔
ہلاک ہونے والوں میں تین بچے بھی شامل تھے۔
صحت کے صوبائی سربراہ، ولایت خان احمدزئی نے ہفتے کے روز وائس آف امریکہ کو اس بات کی تصدیق کی کہ حملے میں 90 سے زائد افراد زخمی ہوئے، جن میں سے 17 کی حالت ’’انتہائی تشویشناک ‘‘ہے۔
حملہ آوروں نے برقعے پہن رکھتے تھے
پولیس اور عینی شاہدین نے بتاہا ہے کہ برقع پہنے دو خودکش بم حملہ آوروں نے، جو رائفلوں سے مسلح تھے، صوبائی دارالحکومت کے خواجہ حسن علاقے میں واقع مسجد میں جمعے کے وقت داخل ہوئے۔
حملہ آوروں نے مرکزی احاطہ نماز کے اندر داخل ہوکر نمازیوں پر گولیاں چلائیں جس کے بعد اُنھوں نے جسم سے بندھا بارودی مواد بھک سے اڑا دیا۔ یہ بات پولیس کے صوبائی سربراہ، راز محمد مندوزئی نے وائس آف امریکہ کو بتائی ہے۔
پکتیا میں ہونے والی خونریزی کی فوری طور پر کسی نے ذمے داری قبول نہیں کی، جس علاقے کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔
طالبان سرکشی کے ترجمان نے فوری طور پر مسجد پر ہونے والے چھاپے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے، جس سے یہ شک ابھرا کہ شیعہ خونریزی کے پیچھے داعش کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔
داعش خراسان، جو مشرق وسطیٰ کے دہشت گرد گروپ کا افغانستان کا ایک دھڑا ہے، اُس نے حالیہ ماضی میں افغانستان میں شیعہ زیارات اور اجتماعات کے دوران ہونے والے تمام حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
صدر اشرف غنی اور چیف اگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے بے گناہ نمازیوں کے خلاف ہونے والے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔