افغانستان کے دارالحکومت کابل کے حساس علاقوں میں اتوار کو طالبان شدت پسندوں کے منظم حملے جب شروع ہوئے تو ان کے عینی شاہدین میں پاکستانی خواتین اراکین پارلیمان کا وفد بھی شامل تھا۔
پیر کو وطن واپسی پر پاکستانی خواتین اراکین پارلیمان کے پانچ رکنی وفد کی سربراہ شہناز وزیرعلی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ وہ اپنے وفد کے ہمراہ صدر حامد کرزئی سے ملاقات کرکے کابل میں پاکستانی سفارت خانے جا رہی تھیں کہ حملے شروع ہو گئے۔
’’سارے شہر میں فائرنگ اور راکٹ گرنے کی آوازیں آ رہی تھیں اور بہت ساری جگہوں سے دھواں بھی اٹھ رہا تھا۔ یہ نہیں پتہ چل رہا تھا کہ اگلا حملہ کہاں سے ہو گا تو یقیناً یہ سب کے لیے بہت ہی پریشان کن صورت حال تھی۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ حملے کے فوراً بعد افغان سکیورٹی فورسز حرکت میں آ گئیں۔ ’’بہت ساری سڑکیں، علاقے انھوں نے سیل کر دیئے۔‘‘
شہناز وزیر علی نے کہا کہ سخت حفاظتی اقدامات میں ان کا وفد پاکستانی سفارت خانے پہنچا۔ ’’سفارت خانے میں ہم نو گھنٹے تک بیٹھے رہے، پھر دوسرا ایک لمبا راستہ تھا اس کے ذریعے رات کو ہم ہوٹل میں پہنچے۔‘‘
پانچ رکنی پاکستانی وفد کی سربراہ نے بتایا کہ ان کے دورہِ کابل کا مقصد دونوں ممالک کی خواتین قانون سازوں کے درمیان روابط کو فروغ دینا اور حقوق نسواں کے تحفظ کے لیے قانون سازی میں ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرنا تھا۔
کابل میں قیام کے دوران پاکستانی وفد نے افغان پارلیمان کی خواتین اراکین اور سرکاری کمیشن برائے حقوق نسواں کے نمائندوں سے بات چیت کے علاوہ صدر حامد کرزئی سے بھی ملاقات کی۔
’’پاکستان اور افغانستان کی خواتین کے مشترکہ مسائل بھی ہیں اور اس حوالے سے قانون سازی کے بارے میں ہماری (افغان عہدے داروں سے) تفصیلی بات چیت ہوئی۔‘‘
شہناز وزیرعلی نے بتایا کہ افغان حکومت کو بھی اس بات کا ادراک ہے کہ خواتین کو قومی دھارے میں شامل کیے بغیر ترقی کا حصول ممکن نہیں۔
’’افغانستان میں کئی نمایاں عہدے اب خواتین کو دیے گئے ہیں اور افغان سمجتھے ہیں کہ نصف آبادی کو طالبان اور اس سے پہلے ادوار میں بالکل پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔‘‘