بڑھتی دہشت گردی اور سیاسی تناؤ میں افغان امن اجلاس کا انعقاد

فائل

وزارتِ خارجہ کے ترجمان، احمد شکیب مستغنی نے پیر کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ حکام اس عزم پر قائم ہیں کہ داخلی چیلنجوں کو اپنی کوششوں پر حاوی نہ ہونے دیا جائے

افغانستان کے محصور صدر، اشرف غنی منگل کے روز ایک بین الاقوامی اجلاس منعقد کر رہے ہیں، جس کا مقصد ’’وسیع تر کثرتِ رائے‘‘ پیدا کرنے کی نئی کوشش ہے، تاکہ ملک کے مہلک تنازعے کا خاتمہ لایا جاسکے، اور سرحد پار دہشت گردی سے مل کر نبردآزما ہوا جا سکے۔

حکومت نے امن کی اپنی نئی علاقائی کاوش کو ’’کابل عمل‘‘ اجلاس کا نام دیا ہے، لیکن پہلا اجلاس ایسے وقت ہو رہا ہے جب قومی سکیورٹی بدتر ہوتی جا رہی ہے اور سیاسی تناؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

وزارتِ خارجہ کے ترجمان، احمد شکیب مستغنی نے پیر کے روز اخباری نمائندوں کو بتایا کہ حکام اس عزم پر قائم ہیں کہ داخلی چیلنجوں کو اپنی کوششوں پر حاوی نہ ہونے دیا جائے۔

اُنھوں نے کہا کہ افغانستان کے ہمسائے، جیسا کہ ایران اور پاکستان، اجلاس میں یقینی طور پر شرکت کریں گے۔

ترجمان نے یہ بھی کہا کہ دیگر ملکوں میں امریکہ، روس، بھارت، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، برطانیہ، اقوام متحدہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔

مستغنی کے الفاظ میں ’’اور ہمارے سکیورٹی کے اداروں نے بھی حکومت کو یقین دلایا ہے کہ سکیورٹی کے ضروری اقدامات کیے جائیں گے، تاکہ اجلاس کی تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے‘‘۔

تاہم، گذشتہ ہفتے کے واقعات نے افغان امن اور سلامتی کے فروغ کے لیے کلیدی اقدامات پس پشت ڈال دیا ہے۔

دو خودکش بم حملوں اور کابل میں حکومت مخالف احتجاج کے نتیجے میں تقریباً 120 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ 600 کے قریب زخمی ہوئے ہیں۔ خونریزی کا آغاز ٹرک میں نصب دھماکہ خیز مواد کے پھٹنے سے ہوا، جو بدھ 31 مئی کو دارالحکومت کے سفارتی علاقے میں واقع ہوا۔

حملے کی کسی گروپ نے ذمے داری قبول نہیں کی، لیکن تجزیہ کار کہتے ہیں کہ یہ ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔