افغان حکام کے مطابق افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کا ایک وفد طالبان سے بات چیت کے لیے پاکستان پہنچا ہے۔
صدر اشرف غنی کے دفتر کے ایک ’ٹوئیٹر‘ اکاؤنٹ پر ایک پیغام کے ذریعے اس کی تصدیق کی گئی ہے۔ تاہم اس بارے میں مزید کچھ نہیں بتایا گیا کہ اس وفد میں کون شامل ہے اور وہ کس سطح کے طالبان سے ملاقات کرے گا۔
پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے اپنے ایک حالیہ بیان میں تصدیق کی تھی کہ پاکستان افغانستان میں امن اور مصالحت کے عمل کے لیے معاونت کرتا رہا ہے اور اس ضمن میں حمایت جاری رکھی جائے گی۔
مصبرین کا کہنا ہے کہ بات چیت اور رابطے کا یہ دور افغان حکومت کے عہدیداروں اور طالبان کے درمیان چین کے شہر ارمچی میں حال ہی میں ہونے والے مذاکرات کا دوسرا دور ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے سابق سفارت کار رستم شاہ مہمند نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اگرچہ اس طرح کا رابطہ خوش آئند اقدام ہے لیکن اس سے فوری طور پر کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں رکھنی چاہیئے۔
"یہ بہت اہم پیش رفت ہے، ایک تو پاکستان کا کردار تسلیم کیا جارہا ہے، دوسرا پاکستان کی طرف سے جو ان کو حمایت کا یقین دلایا جارہا تھا وہ اب پہلی مرتبہ سامنے آرہا ہے، تیسرا پاکستان کے بارے میں ان کے جو خدشات تھے وہ اس دورے کے بعد کافی حد تک کم ہو جائیں گے اور پچھلے چند ہفتوں کے دوران جو ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی ہو رہی تھی اس میں کمی آجائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو لوگ ان سے بات کریں پھر وہ یہی بات( جو طالبان کا قطر گروپ ہے) ان کے سامنے رکھیں اور پھر یہ بات چیت کا سلسلہ وہیں سے شروع ہو جائے جو اور بھی بہت اچھا ہے"۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کی قیادت کی طرف سے افغان حکومت کو یہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ وہ مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے اور مذاکرات کے لیے طالبان اور افغانستان کی حکومت درمیان رابطوں میں کردار ادا کرے گا۔
مصالحت کے اس عمل کے لیے افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل کا وفد ایسے وقت پاکستان پہنچا جب حالیہ ہفتوں میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان سفارتی سطح پر کچھ تناؤ دیکھا گیا۔
افغانستان میں مہلک حملوں کے بعد افغان عہدیداروں کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ ان کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی، جس کی پاکستان کی طرف سے سختی سے تردید کی گئی۔
حال ہی جنوبی وزیرستان میں انگور اڈہ کے علاقے میں سرحد پر فائرنگ کے واقعہ پر بھی دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزام لگائے گئے اور گزشتہ ہفتے ہی دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے سفیروں کو طلب کر کے اس معاملے پر اپنا اپنا احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔