امریکی ایوان نمائندگان کے رکن ایڈم شف کا کہنا ہے کہ وہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں پاکستان کے کردار سے پوری طرح سے مطمئن نہیں ہیں اور پاکستان اور بھی بہت کچھ کر سکتا ہے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس نے ایڈم شف سے ایک حالیہ انٹرویو کے دوران پوچھا کہ کیا وہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے امن عمل میں پاکستان کے کردار سے مطمئن ہیں، تو رکن کانگریس نے نفی میں جواب دیا۔
ایڈم شف کا کہنا تھا کہ جہاں تک پاکستان کے اندر طالبان کی موجودگی کا تعلق ہے، تو اس کے خلاف کاروائی کے معاملے میں، یا جس حد تک طالبان کی قیادت کو پاکستان محفوظ پناہ گاہ مہیا کرتا رہا ہے، تو میں اس سے مطمئن نہیں ہوں۔ بقول ان کے پاکستان اور بہت کچھ کر سکتا ہے، اور وہ اپنے اقدامات سے طالبان کو یہ باور کرا سکتا ہے کہ انہیں پاکستان میں محفوظ پناہ گاہ حاصل نہیں ہو گی اور یہ کہ وہ مذاکرات کی میز پر آئیں۔
انہوں نے کہا کہ اگر پاکستان ایسا کرنے پر زیادہ رضامند ہوتا تو بہت پہلے کامیاب حل تلاش کر لیا جاتا۔
دوسری جانب، امریکہ کی سابق معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا، رابن رافیل نے مذاکرات میں پاکستان کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کے دوران، طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور سچائی کے ساتھ بات چیت کو آگے بڑھانے میں، پاکستان بہت مددگار رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں مذاکرات معطل ہونے کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورت حال پر پاکستان کو خاصی تشویش ہو گی، کیونکہ یہ پاکستان کے مفاد میں بھی ہے کہ بات چیت کامیاب ہو کیونکہ اگر افواج وہاں سے نکل رہی ہیں تو انہیں ایک قاعدے سے نکلنا چاہئیے نہ کہ وہ پیچھے کچھ چھوڑ جائیں۔
رابن رافیل کے مطابق، یہ بھی پاکستان کے مفاد میں ہے کہ افغانستان میں نہ تو انتشار پیدا ہو اور نہ ہی خانہ جنگی ہو، کیونکہ خانہ جنگی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان بھی چاہے گا کہ مذاکرات دوبارہ صحیح سمت میں چل پڑیں۔
سابق امریکی معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی و وسطی ایشیا، کارل اِنڈر فرتھ کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان کو اس معاملے میں ایک اہم کردار ادا کرنا ہے۔ امریکہ طالبان کے درمیان بات چیت کی جو بھی صورت بنے، پاکستان کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ وزیر اعظم عمران خان کا دورہ امریکہ اور ان کی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ ملاقات سے، کم از کم ٹرمپ انتظامیہ اور پاکستانی حکومت کے درمیان مکالمے کی فضا ہموار ہوئی ہے، جس سے دونوں ملکوں کے درمیان تعمیری اور معنی خیز بات چیت شروع ہو گی۔
انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ اب پاکستان اور امریکہ کے درمیان اس پر سنجیدگی سے بات چیت ہو رہی ہو گی کہ اس وقت افغانستان میں امن عمل کے حوالے سے حقیقت میں کیا ہو رہا ہے۔
رکن کانگریس ایڈم شف کا کہنا تھا کہ ان کےنزدیک پاکستان کے ساتھ ساتھ امن عمل میں علاقائی کھلاڑیوں کا بھی کردار ہو نا چاہئیے، کیونکہ وہ امن پر اثر انداز ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس میں بھارت سمیت، ایران اور روس کا کردار ہونا چاہئیے کیونکہ وہ تنازع کے حتمی حل میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔