افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ان کا ملک طالبان کے ساتھ تنازع کے سیاسی حل کے عزم پر قائم ہے۔
اتوار کو چین میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ امن کے لیے ان کی غیرمشروط پیشکش جامع ہے اور انھیں اس بات کی خوشی ہے کہ طالبان نے بھی جنگ بندی کا اعلان کیا۔
گزشتہ ہفتے صدر غنی نے افغان سکیورٹی فورسز کو طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں روکنے کا کہا تھا تا کہ انھیں مذاکرات کی میز پر لانے میں مدد مل سکے۔
ایک روز قبل ہی طالبان نے عیدالفطر کی مناسبت سے جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔ عسکریت پسند جنگ سے تباہ حال اس ملک کے نصف کے لگ بھگ علاقوں پر یا تو اپنا اثر و رسوخ رکھتے ہیں یا پھر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے افغان فورسز کے ساتھ لڑائیوں میں مصروف ہیں۔
صدر غنی نے تنظیم کے اجلاس سے اپنے خطاب میں ان تمام ممالک کا شکریہ بھی ادا کیا جنہوں نے کابل کی طرف جنگ بندی کے اعلان کی حمایت کی۔
"ہمیں بہت خوشی ہے کہ ہمارے بین الاقوامی شراکت دار ایک پرامن، مستحکم افغانستان کی حمایت کے عزم پر قائم ہیں۔ ہم افغانستان میں استحکام اور اس سے روابط کے لیے خطے کی سطح پر اتفاق ہوتا دیکھ رہے ہیں۔"
افغان صدر نے جنوبی ایشیا کے لیے امریکی حکمت کو ایک بار پھر سراہتے ہوئے کہا کہ یہ امن و استحکام کے لیے ساز گار ماحول بنا رہی ہے۔
افغانستان کو درپیش دیگر مشکلات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بدعنوانی، خراب طرز حکمرانی اور انسانی و قدرتی وسائل کے محدود استعمال کے تناظر میں افغانستان اب جامع اصلاحاتی ایجنڈے کو مہمیز کر رہا ہے۔
"ہماری پیش رفت حقیقی ہے لیکن اٹھایا جانے والا ہر قدم بہت مشکل صورتحال میں اٹھایا گیا۔ ہم اپنے حقوق بہت سی قربانیوں اور سکیورٹی فورسز کی بہادری سے حاصل کر رہے ہیں۔"
انھوں نے رواں سال ملک میں پارلیمانی انتخابات اور آئندہ برس صدارتی انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کے لیے بھی بھرپور عزم کا اظہار کیا۔
افغانستان شنگھائی تعاون تنظیم میں بطور مبصر ملک شامل ہے۔