افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں نمایاں کمی

افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں نمایاں کمی

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین ’یواین ایچ سی آر‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان، ایران اور دنیا کے دیگر ممالک میں مقیم افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں رواں سال نمایاں کمی آئی ہے۔

ادارے کے مطابق اس سال کے پہلے دس مہینوں میں صرف 60 ہزار پناہ گزین افغانستان لوٹے جب کہ 2010ء میں اس عرصے کے دوران وطن واپس جانے والے افغان مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔

پاکستان افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور یہاں لگ بھگ 17 لاکھ پناہ گزین مقیم ہیں جن کی ایک بڑی تعداد خیبر پختون خواہ اور بلوچستان میں آباد ہے۔ رواں سال پاکستان سے وطن واپس جانے والے پناہ گزینوں کی تعداد 43 ہزار رہی جب کہ دیگر 17 ہزار ایران سے افغانستان واپس گئے۔

مہاجرین کی افغانستان واپس نا جانے کی بڑی وجوہات میں سے وہاں عدم تحفظ، غیر یقینی صورتحال اور روزگار کے مواقعوں کی کمی بتائی گئی ہے۔

افغانستان میں غیر موزوں حالات کے پیش نظر مہاجرین کی وطن واپسی میں مشکلات کے باعث حکومت پاکستان نے ان پناہ گزینوں کی ملک میں موجودگی کو دسمبر 2012ء تک قانونی حیثیت دینے کا فیصلہ کیا تھا لیکن عمومی تاثر یہ ہے کہ اس عرصہ میں تمام مہاجرین کی واپسی ممکن نہیں ہوگی جس کی وجہ سے متبادل منصوبے بھی زیر غور ہیں۔

پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ملک کی معیشت میں مثبت کردار ادا کرنے اور ہنر مند افغان مہاجرین کو 2012ء کے بعد بھی یہاں کام جاری رکھنے کے لیے سرکاری اجازت نامے جاری کرنے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔

افغان مہاجرین کی وطن واپسی میں نمایاں کمی

دریں اثنا وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے آسٹریلیا میں دولت مشترکہ کے سربراہی اجلاس میں عالمی برادری سے اپیل کی کہ ان مہاجرین کی وطن واپسی میں پاکستان کی مدد کرے۔ ’’اُنھیں (افغان مہاجرین کو) واپس جانے کی ضرورت ہے اور ان کے لیے امدادی کیمپ افغانستان میں قائم کیے جانے چاہئیں۔‘‘

وزیراعظم گیلانی نے کہا کہ روزانہ 45 ہزار افغان شہری پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اس لیے ان میں سے دہشت گردوں اور سیاحوں کی تفریق کرنا نا ممکن ہے۔