پاکستان میں دہائیوں تک مقیم رہنے والے افغان پناہ گزینوں کی رضاکارانہ طور پر اپنے وطن واپسی کا عمل پیر سے دوبارہ شروع ہو گیا اور پہلے روز درجنوں خاندان اپنے اسباب کے ساتھ افغانستان داخل ہوئے۔
گزشتہ نومبر میں یہ سلسلہ معمول کے مطابق سرد موسم کی وجہ سے روک دیا گیا تھا۔
پشاور کے مضافاتی علاقے چمکنی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین "یو این ایچ سی آر" کے رجسٹریشن مرکز کے باہر افغانستان واپس جانے والے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد ضابطے کی کارروائی کے لیے موجود تھی۔
یہ خاندان تیس سال سے زائد عرصے تک پاکستان میں مقیم رہے اور اتنا وقت یہاں گزار کر اپنے وطن واپس جانا ان کے لیے خوشی کا باعث تو ہے لیکن مستقبل سے متعلق کئی خدشات بھی انھیں گھیرے ہوئے تھے۔
صوبہ پکتیا سے تعلق رکھنے والے خان ولی کا خاندان 37 سال تک پاکستان میں مقیم رہا اور اب واپس جاتے ہوئے ان کے بقول وہ اچھی اور بری یادوں کو اپنے ساتھ لے کر جا رہے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا۔ "خوش تو ہیں کہ اپنے وطن جا رہے ہیں لیکن یہاں بھی زندگی گزاری ہے تو یہاں اپنوں سے دور جانا پڑ رہا ہے تو عجیب سے صورتحال ہے۔۔۔افغان حکومت اور یو این ایچ سی آر نے تعاون کیا تو وہاں زندگی کی نئی شروعات کریں گے۔"
اس مرتبہ رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے افغانوں کو دو سو ڈالر فی کس مالی معاونت فراہم کی جا رہی ہے جب کہ گزشتہ سال یہ رقم چار سو ڈالر فی کس تھی۔ امداد میں اس کمی پر بھی لوگ پریشان ہیں اور ان کا مطالبہ تھا کہ رقم میں اضافہ کیا جائے۔
یہاں موجود کامران نامی پناہ گزین نے بتایا کہ اس رقم سے نئی زندگی شروع کرنا تقریباً ناممکن ہے۔
"اس میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہاں گھر مل جائے کوئی رہائش کے لیے کاروبار کے لیے جگہ ملے ادھر تو کوئی سہولت نہیں ہے، ادھر سے تو کرایہ بھی پورا نہیں ہوگا۔"
یو این ایچ سی آر کے مطابق مالی معاونت میں کمی کی وجہ عالمی سطح پر ادارے کو ملنے والے فنڈز کی کمی ہے۔
ادارے کی پاکستان میں ترجمان دنیا اسلم خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا۔
"گزشتہ سال یو این ایچ سی آر کے پاس فنڈز تھے تو یہ امداد دو سو سے بڑھا کر چار سو ڈالر کر دی تھی اور ہمارا ارادہ تھا کہ اگر فنڈز جمع ہو جاتے ہیں تو ہم اس امداد کو برقرار رکھیں گے۔ لیکن عالمی سطح پر ہی فنڈنگ میں کمی واقع ہوئی۔۔۔اس بنا پر اب ہم واپس جانے والے افغانوں کو دو سو ڈالر ہی ادا کر سکیں گے۔"
یو این ایچ سی آر کا کہنا ہے کہ انھوں نے روزانہ کی بنیاد پر لگ بھگ دو سو خاندانوں کو وطن واپس بھیجنے کا انتظام کر رکھا ہے۔