پاکستان کے صوبہ خیبر پختون خوا کی صوبائی حکومت نے 'انسانی ہمدردی ' کی بنیاد پر 80 کے عشرے میں جیوگرافک کے سرورق پر شائع ہونے والی ایک تصویر کی بنا پر دنیا بھر میں شہرت حاصل کرنے والی، سبزآنکھوں کی لڑکی' کوملک سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔
حکومت کی جانب سے ہفتے کے روز کا یہ اعلان پشاور کی ایک عدالت کے فیصلے کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے۔ عدالت نے 46 سالہ شربت گلہ کو جعل سازی کے ذریعے پاکستانی شناختی کارڈ بنوانے کا جرم ثابت ہونے پر پیر کے روز ملک سے نکالنے کا حکم دیا تھا۔
افغان خاتون کو تقریباً دو ہفتے قبل حراست میں لیا گیا تھا اور بعد ازاں اس میں ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص ہونے کے بعد علاج کے لیے اسپتال میں داخل کرا دیا تھا۔
جمعے کے روز شربت گلہ کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس نے جعلی سازی کے ذریعے شناختی کارڈ بنوانے اور غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہنے کے جرم کا اعترف کرلیا۔
جج نے اسے 15 دن قید کے ساتھ11سو ڈالر کے جرمانے کی سزا سنائی ، لیکن فیصلہ ہونے سے پہلے کی حراستی مدت کو بھی سزا کی مدت میں شامل کرنے کا حکم دیا، جس کے بعد اسے پیر کو رہا کرکے ملک سے بے دخل کیا جانا تھا۔
لیکن اب ہفتے کے روز ایک صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے بتایا کہ حکومت نےخالصتاً' انسانی ہمدردی ' کی بنیاد پر شربت گلہ کی ملک بدری کے عدالت فیصلے کا جائزہ لیا ہے تاکہ وہ پاکستان میں رہ کر اپنی بیماری کا علاج کراسکے۔
اسپتال میں زیر علاج سبز آنکھوں والی افغان خاتون نے، جسے جیوگرافک کے سرورق پر اپنی تصویر کی اشاعت کے بعد 'افغان مونا لیزا' کا نام دیا گیا تھا، نامہ نگاروں کو بتایا کہ وہ پچھلے 13 سال سے افغانستان نہیں گئی۔