پاکستان کي طرف سےافغانستان کے مستقبل کےبارے ميں جرمني ميں ہونے والي بين لا قوامي کانفرنس ميں شرکت نہ کرنے کے اعلان ، کانفرنس کے نتائج ، طالبان کے ساتھ امن مذاکرات اور مجموعي طور پر اِس فيصلے کے علاقے ميں قيامِ امن کي کوششوں پرمرتب ہونےوالے اثرات کےحوالے سےجہاں پاکستان میں تجزيے اورتبصرے جارے ہيں وہاں امريکہ ميں بھي يہ موضوع زيربحث ہے۔
يہاں واشنگٹن ميں Heritage Foundation سےمنسلک سينئر تجزيہ نگار اورجنوبي ايشيائي امور کي ماہر ، ليزا کرٹس نے’ وائس آف امريکہ‘ سے ايک انٹر ويو میں کہا کہ چونکہ پاکستان ميں امن کا دارومدار افغانستان ميں قيام ِامن پر ہے، اس لئے پاکستان کي طرف سے کانفرنس ميں شريک نہ ہونے کا فيصلہ، بقول اُن کے، نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے لئے بھي نقصاندہ ہے۔
ليزا کرٹس کا کہنا تھا کہ اوبامہ انتظاميہ کي افغان حکمتِ عملي کا ايک اہم پہلو طالبان کو مذاکرات کي ميز پر لانا ہے۔ تاہم، يہ کوششيں زميني حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے زيادہ پُراميد نہيں ہيں اور نہ ہي طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے حوالے سے اس کانفرنس ميں بڑي پيش رفت متوقع تھي۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ پھر بھي، بون کانفرنس ميں شرکت نہ کرنے کے پاکستان کے اس اعلان سے ان کوششوں کو مزيد دھچکا لگا ہے۔
ليزا کرٹس کے مطابق پاکستان کے کانفرنس میں شامل نہ ہونے کے فيصلے کے باوجود ، کانفرنس جاري رہے گي جس ميں بہت سے ممالک افغانستان ميں امن ، استحکام اور خود مختاري کے حوالے سے تعاون کي يقين دہاني کرائيں گےاور 2014ء کے بعد کے افغانستان کے لئے ممکنہ لائحہ عمل پر اپنے خيالات کا اظہار کرينگے۔ ینکے مطابق کانفرنس ميں علاقے کے لئے معاشي اور اقتصادي ترقي کے مجوزہ منصوبوں پر بھي بات ہو گي ليکن انکا کہنا ہے ان منصوبوں پر عمل درآمد کے لئے سکيورٹي کا بہتر ہونا ضروري ہے اور علاقے کي سکيورٹي ميں پاکستان کا کردار انتھائي اہم ہے اور يوں انکے مطابق اس کانفرنس ميں پاکستان کي شموليت کي اہميت بڑھ جاتي ہے۔
پاک امريکہ تعلقات کے بارے ميں ليزا کرٹس کا کہنا تھا کہ کچھ عرصے سے دونوں ملکوں کے مابين تعلقات ميں جو پيش رفت نظر آرہي تھي اسے ايک دفعہ پھر دھچکا لگا ہے ۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ دونوں ممالک ميں سے کوئي بھي خراب تعلقات کے حق ميں نہيں ہے کيونکہ دونوں کو ايک دوسرے کي ضرورت ہے۔
مہمند ايجنسي ميں پيش آنے والے واقعے سے مستقبل ميں بچنے کے بارے ميں ، ليزا کرٹس کا کہنا تھا ايسے واقعات اسوقت تک پيش آتے رہينگے جب تک کہ افغان حکمت عملي کے بارے ميں پاکستان اور امريکہ کے نقطہ نظر مين اختلاف ہے اور يہ تائثر موجود ہے کہ پاکستاني سرزمين سے دہشت گرد افغانستان مين موجود نيٹو افواج پر حملوں ميں ملث ہيں۔
۵ دسمبر کو افغانستان کے مستقبل کے بارے ميں ہونے والي يہ کانفرنس تقريبا دس سال قبل ہونے والي پہلي بون کانفرنس سے کس طرح مختلف ہو گي؟ ليزا کہتي ہيں کہ بان کي پہلي کانفرنس ايک مختلف حالات ميں ہوئي تھي جب طالبان کي حکومت کو ختم ہوئے کچھ ہي عرصہ ہوا تھا اور اتحادي نئي حکومت بنانے اور صدر کرزئي کے لئے حمايت حاصل کرنے کي کوششيں ہو رہي تھي ، امن مزاکرات کي طرف تواجہ نہيں دي جا رہي تھي اور پاکستان مين بھي سکيورٹي کے حالات نسبتا بہتر تھے۔ اب دس برس بعد اب جبکہ بون کي دوسرے کانفرنس ہو رہي ہے ، حالات بلکل مختلف ہيں ، افغان عوام جنگ سے تھک چکے ہيں ، ۲۰۱۴ کے افگانستان کي باتيں ہو رہي ہے اور پاکستان کے حالات بھي کافي بدل چکے ہيں۔
دوسري جانب امريکن انٹر پرئز انسٹي ٹيوٹ سے منسلک سياسي اور سکيورٹي امور کے ماہر ڈاکٹر احمد مجيد پار نے واس آف امريکہ کو ايک انٹر ويو ميں بين لا قوامي بون کانفرنس سے پاکستان کے بائيکاٹ کو بد قسمتي قرار ديا اور کہا کہ مستقبل کي طرف ديکھتے ہوے جسکو اينڈ گيم کا نام ديا گيا ہے ، پاکستان کا کليدي کردار ہے ۔ ینکا کہنا تھا کہ اس کانفرنس کا مقصد ہي افغانستان کے تمام ہمسا يہ ممالک کو ايک ميز پر جمع کرکے علاقے کے مستقبل پر اتفاق رائے قائم کرنا تھا اور يوں انکے الفاظ ميں پاکستان کي اس کانفرنس مين غير موجودگي کے اثرات محسوس کئے جا سکيں گے۔
پاک امريکہ تعلقات کے بارے ميں ڈاکٹر احمد کا کہنا تھا کہ يہ ايک نازک نہج پر پہنچ چکے ہيں تاہم انکا کہنا تھا کہ يہ تنا ئو عارضي ہے اور ماضي کي طرح تعلقات دوبارہ معمول پر آ جائينگے، کيونکہ امڑيکہ کو افغانستان ميں اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے پاکستان کي ضرورت ہے اور دوسري جانب پاکستان کا سب سے بڑا ڈونر امريکہ ہے ۔ تاہم انکا کہنا تھا کہ پاک امريکہ تعلقات ميں اتار چڑھاو آئندہ بھي ديکھنے ميں آے گا کيونکہ افغانستان ميں بقول انکے دونوں ملکوں کے مفاد ايک دوسرے سے متصادم ہيں۔