القاعدہ کی طرف سے وفاداری کا اعلان خوش آئند ہے: افغان طالبان

فائل فوٹو

افغان طالبان اور شدت پسند تنظیم ’داعش‘ کے حامی جنگجوؤں کے درمیان افغانستان میں بھی لڑائی جاری ہے جب کہ ’داعش‘ اور القاعدہ بھی ایک دوسرے کی حریف ہیں۔

افغان طالبان کے نئے سربراہ ملا اختر منصور نے شدت پسند تنظیمالقاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری کی طرف سے طالبان کی نئی قیادت سے وفاداری کو خوش آئند قرار دیا ہے۔

ملاعمر کے انتقال کے بعد افغان طالبان کی قیادت سنبھالنے والے ملا اختر منصور کو طالبان تحریک ہی کے کئی رہنماؤں کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے۔

اس تناظر میں القاعدہ کی طرف سے ملا اختر منصور سے وفاداری کے اعلان کو اہم تصور کیا جا رہا تھا۔

افغان طالبان اور شدت پسند تنظیم ’داعش‘ کے حامی جنگجوؤں کے درمیان افغانستان میں بھی لڑائی جاری ہے جب کہ ’داعش‘ اور القاعدہ بھی ایک دوسرے کی حریف ہیں۔

’داعش‘ اگرچہ شام اور عراق میں سرگرم ہے لیکن حال ہی میں افغانستان میں بھی طالبان کے جنگجوؤں نے اس میں شمولیت اختیار کی۔

اس ساری صورت حال کو دیکھتے ہوئے بھی افغان طالبان اور القاعدہ کے اتحاد کو اہمیت دی جا رہی ہے۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے ہیں انٹرنیٹ پر جاری ہونے والے ایک آڈیو پیغام میں شدت پسند تنظیم 'القاعدہ' کے سربراہ ایمن الظواہری نے کہا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی ملا اختر منصور کے ساتھ وفادار رہنے کا عزم کرتے ہیں۔

ایمن الظواہری کا آڈیو پیغام میں کہنا تھا کہ وہ 'القاعدہ' کے سربراہ کی حیثیت سے طالبان کے نئے سربراہ کی اُسی طرح بیعت کرتے ہیں جیسا کہ اُن کے پیش رو اسامہ بن لادن نے ملا عمر کی بیعت کی تھی۔

ایمن الظواہری کے بیان کے کچھ ہی گھنٹوں کے بعد داعش کے حامیوں اور کئی دیگر افراد نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ٹویٹر پر اس پر تبصرہ شروع کر دیا تھا جن سے کئی سازشی کہانیوں نے جنم لیا اور یہ الزام بھی لگایا گیا کہ ایسا شاید پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اشارے پر کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان نے گزشتہ سال کے دوران القاعدہ سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اپنی سرزمین پر بھرپور کارروائی کی ہے جسے بین الاقوامی برداری نے بھی سراہا تھا جب کہ امریکہ کی طرف سے افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو بھی سراہا گیا ہے۔