ہلمند: خواتین کا مظاہرہ، طالبان سے لڑائی بند کرنے کا مطالبہ

برقعے میں ملبوس خواتین اسٹیڈیئم پہنچیں؛ اور جہاں مرد حضرات خیمہ زن تھے، اُسی کیمپ کے قریب اپنا خیمہ گاڑھا اور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ باغی لڑائی بند کریں اور امن بات چیت کا حصہ بنیں

افغانستان کے قدامت پسند صوبہٴ ہیلمند میں منگل کے روز افغان خواتین سڑکوں پر نکل آئیں اور مردوں کے لیے مخصوص دھرنے میں شریک ہوئیں۔ اُن کا مطالبہ ہے کہ باغی طالبان اپنی مخاصمانہ سرگرمیاں بند کریں۔

گذشتہ جمعرات کو صوبائی دارالحکومت، لشکرگاہ کے ایک اسپورٹس اسٹیڈیئم میں کار میں نصب مہلک خودکش حملہ ہوا، جس کے بعد نوجوان لڑکوں نے حملے کے مقام پر لڑائی کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا۔

اہل کاروں نے کہا ہے کہ دھماکے میں کم از کم 14 افراد ہلاک جب کہ 40زخمی ہوئے۔

برقعے میں ملبوس خواتین اسٹیڈیئم پہنچیں؛ اور جہاں مرد حضرات خیمہ زن تھے، اُسی کیمپ کے قریب اپنا خیمہ گاڑھا اور احتجاجی مظاہرہ کیا۔ وہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ باغی لڑائی بند کریں اور امن بات چیت کا حصہ بنیں۔

احتجاج کرنے والی متعدد خواتین کے لیے بتایا جاتا ہے کہ لڑائی میں اُن کے قریبی رشتہ دار ہلاک ہو چکے ہیں۔ افغانستان کے پشتون نسل والے اکثریتی علاقے میں شاذ و نادر ہی خواتین اپنے گھروں سے باہر نکل کر احتجاجی مظاہروں میں حصہ لیتی ہیں۔

احتجاجی ریلی میں شامل ایک خاتون نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ ’’ہم نے اپنے رشتہ دار کھوئے ہیں، ہم صوبے میں امن کی خواہاں ہیں‘‘۔

ریلی میں شریک ایک اور خاتون کے مطابق، ’’ہمیں بیواہ ہونے اور اپنے بچوں کی ہلاکت پر ماتم کناں ہونے سے بچاؤ‘‘۔

ہیلمند میں لڑائی مخالف پہلی نوعیت کے اس مظاہرے کے منتظمین نے کہا ہے کہ جمعرات کے دِن سرکشوں کے زیر کنٹرول ضلعے، موسیٰ قلعہ کی جانب مارچ کریں گے، تاکہ طالبان کو امن کا پیغام پہنچایا جا سکے۔

یہ ضلعہ صوبائی دارالحکومت سے تقریباً 90 کلومیٹر دور واقع ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ باغیوں کو اس ’لانگ مارچ‘ کے بارے میں آگاہ کردیا گیا ہے، اس التجا کے ساتھ کہ وہ مظاہرین کی سلامتی کو یقینی بنائیں، جن کی جانب سے جواب کا انتظار ہے۔

طالبان کے ایک اہل کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ اُن کا گروپ مظاہرین کے ساتھ ملنے اور بات کرنے کا متمنی ہے۔