افغانستان: نیٹو قافلے پر خودکش حملہ، چار شہری ہلاک

خودکش حملہ

وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان نے کہا ہےکہ دھماکے کے نتیجےمیں ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق، نیٹو کا قافلہ مغربی کابل سے گزر رہا تھا کہ ایک خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو بارودی مواد سے بھری گاڑی سے ٹکرا دیا

اتوار کے روز کابل میں ہونے والے کار بم دھماکے کی ذمہ داری طالبان باغیوں نے قبول کر لی ہے، جس میں امریکی قیادت میں لڑنے والی بین الاقوامی افواج کے ایک قافلے کو ہدف بنایا گیا۔

حملے میں چار افغان سولین ہلاک، جب کہ دو درجن سے زائد دیگر افراد زخمی ہوئے۔

تشدد کی یہ کارروائی ایسے وقت ہوئی ہے جب افغان حکام پُراعتماد دکھائی دیتے ہیں کہ لیے گئے نئے اقدام کے نتیجے میں صدارتی انتخابات کے متنازع دوسرے مرحلے کی جاری جانچ پڑتال کے عمل مین تیزی آئے گی۔

پولیس کا کہنا ہے کہ نیٹو کا قافلہ مغربی کابل سے گزر رہا تھا کہ ایک خودکش حملہ آور نے اپنے آپ کو بارودی مواد سے بھری گاڑی سے ٹکرا دیا۔


وزارتِ داخلہ کے ایک ترجمان نے کہا کہ دھماکے کے نتیجےمیں ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین اور بچے شامل تھے۔ عینی شاہد، شیریں آغا ہمدرد نے رائٹرز سے گفتگو کی۔

بقول اُن کے، ’یہ بہت ہی خطرناک ،زوردار دھماکہ تھا‘۔ اور یہ کہ اُنھوں نے لگ بھگ چھ افراد کو زمین پر گرتے ہوئے دیکھا، جس میں سے تین موقع ہی پر چل بسے تھے۔

اُنھوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والے ‘غریب عام شہری‘ تھے، جب کہ 20 سے زائد زخمی ہوئے۔

افغان ٹیلی ویژن فٹیج میں نیٹو کی ایک فوجی گاڑی کو معمولی نقصان پہنچتے دکھایا گیا ہے۔ بین الاقوامی اتحاد کا کہنا ہے کہ اِس دھماکے میں اُن کا کوئی فوجی زخمی نہیں ہوا۔

طالبان باغیوں نے افغانستان میں اپنے حملے تیز کردیے ہیں، ایسے میں جب بین الاقوامی افواج اس سال کے آواخر میں اپنا لڑاکا مشن ختم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغان تنازع کے باعث اس برس کی پہلی شش ماہی کے دوران شہری ہلاکتوں میں 24 فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے۔

اتوار کے روز ہونے والے اِس خودکش بم حملے سے چند ہی روز قبل ایک امریکی جنرل ہلاک، جب کہ ایک درجن سے زائد افراد اُس وقت زخمی ہوئے جب ایک افغان فوجی نے کابل کی ’قومی ملٹری اکیڈمی‘ کا دورہ کرنے والے اپنے ہی ایک وفد پر گولی تان لی۔

دریں اثنا، افغان انتخابی اہل کاروں نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ 14 جون کے متنازع صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کی جانچ پڑتال کے کام کے سلسلے میں پیر کو اُس وقت کافی پیش رفت سامنے آئے گی جب وہ نیا سافٹ ویئر نصب کریں گے، جس کی بدولت، ناجائز ووٹ ازخود منسوخ ہوجائیں گے، جس کُلیئے کی باہمی طور پر رضامندی دی گئی ہے۔

بین الاقوامی نگرانی میں 17 جولائی سے جانچ پڑتال کا باقاعدہ کام شروع ہوا۔ تاہم، تقریباً 23000بیلٹ بکسوں میں سے 5000سے کچھ ہی زائد بکسوں کی جانچ پڑتال مکمل ہوئی ہے۔ مبصرین کو شبہ ہے کہ اِس کام کے لیے اگست کے آخر تک کی مقررہ ڈیڈلائن پوری نہیں ہو پائےگی۔

اِس عمل کی سست روی کا ذمہ دار، ناقدین متحارب صدارتی امیدواروں، اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی ٹیموں کو قرار دیتے ہیں۔


کابل میں قائم افغانستان کےتجزیہ کاروں کا نیٹ ورک، جو اِس عمل کا قریب ہی سے جائزہ لے رہا ہے، وہ اِس بات کا ذمہ دار اختلافی ووٹوں کی مختصر تعداد پر ہونے والی طویل لے دے اور سست روی، دھمکیوں اور امیدواروں کے حامیوں کے درمیان پنجہ آزمائی کو قرار دیتا ہے۔

نیٹ ورک کی سینئر تحقیق کار، کیٹ کلارک نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ افغانستان کے انتخابی اداروں میں سخت اصلاحات کی ضرورت ہے، تاکہ آئندہ کے استحکام کو یقینی بنایا جاسکے، اور سابقہ پڑنے والے سیاسی تنازعات کو مقامی طور پر ہی حل کیا جاسکے، ناکہ ان کے حل کے لیے کسی غیر ملکی مداخلت کا انتظار کیا جائے۔