اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ 2017ء کے پہلے ہفتے میں نو ہزار چار سو سے زائد غیر اندراج شدہ افغان پناہ گزین پاکستان اور ایران سے اپنے ملک واپس آئے ہیں۔
اس وجہ سے یہ تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ اگر ملک واپس آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے تو جنگ کا شکار یہ ملک اس صورت حال سے کس طرح نمٹے گا۔
خبر رساں ادارے ’رائیٹرز‘ کے مطابق ان افراد میں زیادہ تر وہ نوجوان ہیں جو ایران کی سرحد پار کر کے افغانستان واپس آئے ہیں۔
اگرچہ افغان شہریوں کی واپسی رضاکارانہ ہونی چاہیئے تاہم اطلاعات کے مطابق پاکستان حکام کی طرف سے افغان پناہ گزینوں کی ان کے وطن واپسی کے لیے دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائیگریشن 'آئی او ایم' نے کہا کہ ایران سے ملک بدر کیے جانے والے نوجوان افراد ہیں جو روزگار کے لیے وہاں گئے تھے یا پھر وہ اس راستے سے یورپ جانا چاہتے تھے۔
'آئی او ایم' کے مطابق یہ نہیں کیا جا سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ صورت حال کیا رخ اختیار کرے گی۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے ایک ترجمان میتھیو گریڈون نے کہا کہ "اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کیونکہ بہت سارے عوامل ہیں جس کی وجہ سے وطن واپس آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔"
گریڈون نے کہا کہ غیر اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کو ان افراد کی نسبت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اندراج شدہ ہیں کیونکہ نا تو انہیں امدادی اداروں سے نقد امداد ملتی ہے اور نا ہی ان کے بچوں کو تعلیم کے لیے سہولت اور حکومت کی طرف سے زمین فراہم کی جاتی ہے۔
'آئی او ایم' کے مطابق 2017ء کے پہلے ہفتے میں 1,643 غیر اندراج شدہ افغان پناہ گزین یا تو رضاکارانہ طور پر پاکستان سے واپس آئے یا انہیں ملک بدر کیا گیا تھا جب کہ ایران سے واپس آنے والوں کی تعداد 7,776 تھی۔
توقع کی جا رہی ہے آئندہ دو ماہ کے دوران افغانستان میں موسم بہتر ہونے کی وجہ سے واپس آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
متوقع طور پر 2017ء کے اواخر تک پاکستان سے پانچ لاکھ غیر اندراج شدہ افغان پناہ گزینوں کو افغانستان واپس بھیج دیا جائے گا جب کہ گزشتہ دو سالوں کے دوران اپنے ملک واپس آنے والے افغان شہریوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ صورت حال ایسے ہی رہے گی۔
'آئی او ایم' نے کہا کہ جنوری 2016ء کے بعد سے پاکستان اور ایران سے غیر اندراج شدہ سات لاکھ افغان پناہ گزین افغانستان واپس آئے جب کہ 2015ء میں یہ تعداد پچاس ہزار تھی اور ان افراد کی بحالی ایک ایسے ملک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے جسے طالبان، القاعدہ اور داعش کے عسکریت پسندوں کی شورش کا سامنا ہے۔