افغانستان میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ انھوں نے 18 افراد کو گرفتار کیا ہے جن پر ایک خاتون کو قتل کرنے اور جلانے کے واقعہ میں ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
مقتول خاتون پر قرآن کی مبینہ بے حرمتی کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
کابل پولیس کے سربراہ عبدل رحمان رحیمی نے کہا کہ گرفتار کیے گئے مشتبہ افراد نے 27 سالہ خاتون کو ہلاک کرنے میں اپنے کردار کا اعتراف کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "اب تک ہم نے (اس واقعہ پر) 'اکسانے والے' 18 افراد کو گرفتار کیا ہے اور مزید (افراد) کو گرفتار کیا جا رہا ہے"۔
رحیمی نے یہ بھی بتایا کہ اس ہلاکت کے واقعہ پر 13 پولیس اہلکاروں کو معطل کیا گیا ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر موبائل فون سے بنائی گئی ویڈیو میں دکھایا گیا تھا کہ گزشتہ ہفتے ہونے والے اس مہلک حملے کو روکنے میں پولیس نے کوئی بھی اقدام نہ اٹھایا۔
فرخندہ کو ایک مشتعل ہجوم نے تشدد کر کے ہلاک کر دیا تھا اور اس کی نعش کو آگ لگانے کے بعد دریائے کابل میں پھینک دیا گیا تھا۔
حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی تحقیقات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہلاک ہونے والی خاتون پر قرآن کی مبینہ بے حرمتی کا الزام غلط تھا۔
ہلاکت کے اس واقعہ سے افغان انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے اور انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے جب تک حکومت ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں نہیں لاتی۔
صدر اشرف غنی نے فوری طور پر فرخندہ کے "انتہائی بہیمانہ " قتل کی مذمت کرتے ہوئے وسیع تحقیقات کا حکم دے دیا۔
مقتول خاتون کے رشتے داروں کا کہنا ہے کہ فرخندہ نے تعویذ دینے والے ایک شخص پر تنقید کی تھی اور اُسی شخص نے بعد میں فرخندہ پر قرآن کی مبینہ بے حرمتی کا الزام عائد کیا۔
انہوں نے ان اطلاعات کی بھی تردید کی تھی کہ خاتون کی ذہنی صحت خراب تھی اور ان کے بقول وہ اپنی دینی تعلیم مکمل کر کے معلمہ بننے والی تھی۔