افغانستان کے شمالی صوبہ بلخ میں ایک فوجی اڈے پر طالبان کے حملے میں کم از کم 140 افراد ہلاک ہوئے جن میں اکثریت افغان فوجیوں کی ہے۔
جمعہ کو مزار شریف میں ہونے والے اس حملے کے بعد لڑائی کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔ حکام کے مطابق حملہ آور دو افغان فوجی گاڑیوں میں سوار ہو کر فوجی اڈے میں داخل ہوئے۔
مقامی ٹی وی چیلنز نے نام ظاہر کیے بغیر سکیورٹی حکام اور مقامی سیاستدانوں کے حوالے سے بتایا کہ اس "واقعے میں کم ازکم 140 فوجی ہلاک۔۔۔اور کم ازکم ایک سو فوجی زخمی ہوئے۔"
طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس میں "دشمن فوج کے 500 کے لگ بھگ فوجی بشمول افسران ہلاک و زخمی ہوئے۔"
طالبان ایسے حملوں میں جانی نقصان کو اکثر بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
شائع شدہ اطلاعات کے مطابق افغان فورسز کی کارروائی میں کم از کم آٹھ حملہ آور بھی مارے گئے۔
مزار شریف میں جس فوجی اڈے کو نشانہ بنایا گیا وہ افغان نیشنل آرمی 209ویں کور کا بیس ہے اور حالیہ برسوں میں ملک میں طالبان کا کسی فوجی اڈے پر سب سے بڑا حملہ ہے۔
افغانستان میں نیٹو اور ریزلیوٹ اسپورٹ مشن کے کمانڈر جنرل جان نکلسن نے ایک بیان میں افغان نیشنل آرمی کی 209ویں کور کے اڈے پر حملے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طالبان نے ’’مسجد میں نماز پڑھتے ہوئے‘‘ اور کھانا کھانے کے مقام پر افغان فوجیوں کو ہلاک کیا۔
’’افغان نیشنل ڈیفنس اینڈ سکیورٹی فورسز اور افغان عوام کو میں ذاتی طور پر یہ یقین دہانی کرواتا ہوں کہ ہم اُن کے ساتھ کھڑے رہیں گے۔‘‘
جنرل نکلسن نے کہا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف ہم اپنے اہم دوستوں اور اتحادیوں کی مدد کرتے ہیں۔‘‘
اُنھوں نے حملے کے بعد دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے والے افغان کمانڈوز کو بھی سراہا۔