'افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کا انخلا منظم انداز میں ہونا چاہیے'

صوبہ پاروان سے رہائی پانے والے افغان طالبان قیدی

چین، پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ حکام نے اتفاق کیا ہے کہ افغانستان سے امریکی زیر قیادت فوجوں کا انخلا ذمہ دارانہ طریقے سے ہونا چاہیے، تاکہ دہشت گردی اور بغاوت دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔

منگل کے روز ویڈیو کانفرنس کے ذریعے چین، پاکستان اور افغانستان کے اعلیٰ حکام کا تیسرا سہ فریقی اجلاس ہوا، جس میں افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کا جائزہ لیا گیا۔

تینوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کی واپسی منظم اور ذمہ دارانہ طریقے سے ہونا چاہیے، جو اس بات کا ضامن ہو کہ آئندہ وہاں دہشت گردی دوبارہ سر نہ اٹھا سکے۔

یہ مذاکرات ایک ایسے موقعے پر ہوئے جب امریکہ افغان حکومت اور طالبان پر زور ڈال رہا ہے کہ وہ قیدیوں کے متنازعہ مسئلے کو فوری طور پر طئے کریں، تاکہ افغانستان میں تمام فریقوں کے درمیان امن مذاکرات کو آگے بڑھایا جا سکے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان جو امن معاہدہ ہوا تھا اس کے تحت امریکی زیر قیادت اتحادی افواج کی افغانستان سے واپسی جولائی 2021ء تک ہونا ہے۔ اس سے پیشتر بین الافغان مذاکرات مارچ میں ہونا تھے۔ لیکن قیدیوں کے تبادلے کے تنازعے کے سبب یہ ابھی تک نہیں ہو سکے ہیں۔

افغان حکومت اور طالبان نے ایک دوسرے کے سینکڑوں قیدی رہا کیے ہیں، مگر اب بھی دونوں جانب سے کچھ قیدیوں کی رہائی باقی ہے۔ اس سلسلے میں دونوں فریق ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں۔

منگل کو جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں چین اور پاکستان نے افغانستان میں تشدد میں کمی اور انسانی بنیادوں پر فائر بندی کی اپیل کی ہے۔ دونوں ملکوں نے امن اور مصالحت کے عمل اور جلد از جلد بین الافغان بات چیت کے انعقاد کے سلسلے میں افغان حکومت کے ساتھ ہر طرح کا تعاون بڑھانے کے عزم کا اظہار کیا۔


چین اس سہ فریقی مذاکرات کا محرک ہے اور چاہتا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں بہتری آئے اور دونوں ملک اقتصادی اور سیکورٹی کے شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کریں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ چین پاکستان اور افغانستان کے درمیان خوشگوار تعلقات کے لیے بدستور تعمیری کردار ادا کرتا رہے گا۔

تینوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ وہ انسداد دہشت گردی اور سیکورٹی کے شعبوں میں تعاون کریں گے۔ اس میں مشرقی ترکستان اسلامی تحریک اور ان دیگر دہشت گرد تنظیموں اور نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی کی جائے گی جو ہماری مشرکہ سلامتی کے لیے خطرے کا باعث ہیں۔

منگل کو سہ فریقی کانفرنس میں افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے معاملے پر بھی بات ہوئی۔ پاکستان بین الاقوامی برادری سے یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ اس سلسلے میں مدد کرے۔

تینوں ملکوں نے اتفاق کیا کہ مصالحت اور قیام امن کے عمل میں افغان مہاجرین کے مسئلے کو بھی شامل کیا جانا چاہیے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ بین الاقوامی برادری ان مہاجرین کی باعزت واپسی لیے نظام الاوقات طئے کرے اور معقول وسائل فراہم کرے۔

دوسری جانب، افغان دفتر خارجہ کے اہل کاروں نے بتایا ہے کہ چین اور پاکستان نے قیدیوں کی رہائی کے عمل کا خیر مقدم کرتے ہوئے طالبان پر زور دیا ہے کہ بین الافغان مکالمے کے آغاز کی راہ ہموار کرنے کے لیے پرتشدد کارروائیاں بند کی جائیں۔ اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے، افغان دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ افغان امن عمل کی کامیابی کے لیے چین اور پاکستان کی مدد اہمیت کی حامل ہے۔

منگل کے روز ویڈٖیو کانفرنس کے ذریعے چین، پاکستان اور افغانستان نے معاون وزیر خارجہ کی سطح کا تیسرا سہ فریقی اجلاس کیا۔ نامور تجزیہ کار، نجیب اللہ آزاد نے کہا ہے کہ امن عمل کے سلسلے میں صدر اشرف غنی اتفاق رائے پیدا کرنےکے خواہاں ہیں؛ اور یہ کہ ان اجلاسوں کے نتیجے میں اتفاق رائے پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔

وائس آف امریکہ کی افغان سروس کی ایک رپورٹ کے مطابق، طالبان کے ایک سابق اہلکار سید اکبر آغا نے کہا ہےکہ افغان حکومت اور طالبان کے مابین اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہے۔

ادھر، کابل میں پیر کے روز صدر غنی نے علاقائی ملکوں کی ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر طالبان تشدد کی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں تو اس کا امن عمل پر منفی اثر پڑے گا۔