اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ افغانستان میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور تشدد پر مبنی دیگر واقعات میں شہریوں کے ہلاک و زخمی ہونے کی شرح میں گزشتہ سال، 2014ء کی نسبت چار فیصد اضافہ دیکھا گیا۔
افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے معاون مشن نے اتوار کو جاری کردہ اپنی تازہ رپورٹ میں بتایا کہ یہ تعداد آبادی والے علاقوں اور ان کے گرد و نواح میں بڑھتی ہوئی کارروائیوں، خودکش دھماکوں اور دیگر مہلک حملوں کا شاخسانہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال مجموعی طور پر 3545 شہری ہلاک اور 7457 زخمی ہوئے جو کہ 2009ء کے بعد سے افغانستان میں ہلاک و زخمی شہریوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ہلاک و زخمی ہونے والوں میں خواتین کی شرح دس فیصد ہے اور یہ 2014ء کے مقابلے میں 37 فیصد زیادہ ہے جب کہ متاثرہ بچوں کی تعداد میں 14 فیصد اضافہ ہوا۔
عالمی ادارے کے مشن کی اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ گزشتہ طالبان عسکریت پسندوں کی کارروائیوں سے زیادہ سکیورٹی فورسز کے حملوں اور فضائی کارروائیوں میں عام شہری ہلاک و زخمی ہوئے۔
مشن کے سربراہ نکولس ہیسوم نے کابل میں صحافیوں کو بتایا کہ رپورٹ جاری کرنے سے قبل اس کے مندرجات تنازع کے تمام فریقین بشمول افغان سکیورٹی فورسز اور طالبان کو بھی فراہم کیے گئے۔
انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم افغانستان ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین لعل گل لعل نے رپورٹ میں سامنے آنے والے حقائق کو باعث تشویش قرار دیتے کہا کہ یہ اس سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتے ہیں جن کا افغانستان میں شہریوں کو سامنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت اور سکیورٹی فورسز کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی کارروائیوں کے دوران جنگ کے لیے بین الاقوامی سطح پر مروجہ قوانین کو ملحوظ خاطر رکھیں تاکہ شہری زندگیوں کا نقصان کم سے کم ہو۔
لعل گل لعل نے کہا کہ شہریوں کے بڑھتے ہوئے جانی نقصان کی شرح اقوام متحدہ سے بھی اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ وہ تنازع کے فریقین پر اپنا دباؤ ڈالے اور انھیں یہ باور کروائے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ارتکاب میں انھیں بین الاقوامی قوانین کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔