بدعنوانی کے خلاف سرگرمِ عمل ایک نجی افغان تنظیم نے اپنی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پچھلے دو سالوں کے دوران افغانستان میں بدعنوانی میں دو گنا اضافہ ہوا ہے۔
کابل میں مقیم انٹگریٹی واچ افغانستان (Intergity Watch Afghanistan )کی طرف سے جمعرات کو جاری کی گئی اس رپورٹ کے مطابق افغانوں کی اکثریت کا ماننا ہے کہ ملک میں محکمہء پولیس اور عدلیہ حکومت کے بدعنوان ترین ادارے ہیں۔
امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے لیے یہ ایک پریشان کُن انکشاف ہو گا کیونکہ افغانستان کو دی جانے والی کروڑوں ڈالرکی بین الاقوامی امداد کا ایک بڑا حصہ افغان سکیورٹی فورسز کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور اُن کی ساکھ کو بہتر کرنے پر خرچ کیا جارہا ہے تاکہ جلد سے جلد انھیں اپنے ملک کی سکیورٹی کی ذمہ داریاں منتقل کی جا سکیں۔
سروے کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال افغانوں نے قریباََایک ارب ڈالر رشوت کے طور پر ادا کیے جو 2007 ء میں رشوت میں دی گئی رقم کا دو گنا ہے۔ رشوت میں دی گی رقم افغانستان کے سالانہ بجٹ کی کل مالیت کے تیسرے حصے کے برابر ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ سرکاری اداروں میں بدعنوانی میں اضافے سے زیادہ تر غریب افغان متاثر ہو رہے ہیں کیونکہ خصوصاََ دیہی علاقوں میں بدعنوانی کی جڑیں بہت گہری ہو چکی ہیں جہاں طالبان باغیوں کا اثرو رسوخ زیادہ ہے جسے نیٹو افواج کم کرکے افغان حکومت کی عملداری قائم کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں۔
انسدادِبدعنوانی کے اس سروے کے دوران افغانستان کے 34 میں سے 32 صوبوں میں ساڑھے چھ ہزار افراد سے انٹرویو کیے گئے۔ ان میں سے 28 فیصد خاندانوں نے پچھلے سال رشوت ادا کرنے کا اعتراف کیا اور ان میں سے 78 فیصد کا تعلق ملک کے دیہی علاقوں سے ہے۔ 50 فیصد افغانوں کا خیال ہے کہ سرکاری محکموں میں تیزی سے بڑھتی ہوئی بدعنوانی کا فائدہ طالبان باغیوں کو ہوا ہے۔
زیادہ تر رشوت عدالتوں میں اپنے حق میں فیصلوں کے حصول اور پولیس کا تحفظ حاصل کرنے کے لیے ادا کی گئی۔ اوسطاََ ایک سرکاری افسر کو 180 ڈالر رشوت کے طورپر ادا کیے گئے جو کسی سرکاری ملازم کی کئی ماہ کی تنخوا ہ کے برابر رقم ہے۔
سروے رپورٹ کے مطابق بجلی، پاسپورٹ ، قومی شناختی کارڈ کے حصول اور تعلیم و صحت کی سہولتوں تک رسائی کے لیے بھی افغانوں نے عمومی طورپر رشوت کا سہارا لیا ۔