شمالی افغانستان کے قندوز صوبے میں طالبان نے دو حملے کیے۔ صوبائی حکام کے مطابق ان حملوں میں افغان سیکیورٹی فورسز کے کم از کم آٹھ اہل کار ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے۔ جب کہ 13 عسکریت پسند بھی مارے گئے
صوبائی گورنر کے ترجمان عصمت اللہ مرادی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ آدھی رات کے بعد عسکریت پسندوں نے سیکیورٹی کی چوکیوں پر حملہ کر دیا اور رات بھر لڑائی جاری رہی۔
انہوں بتایا کہ صوبائی دارالحکومت کے قریب شنواری گاؤں میں ہونے والے اس حملے میں 13 عسکریت پسند بھی ہلاک ہوئے۔
ایک ٹوئٹ پیغام میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ان حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ 9 سیکورٹی اہل کار ہلاک کر دیے گئے۔ کمک کے لیے آنے والی ہموی گاڑی کو بھی تباہ کر دیا گیا اور اس میں سوار لوگ بھی ہلاک ہو گئے۔
دوسری طرف پڑوسی صوبے بغلان میں بے چینی پھیلی ہوئی ہے کیوں کہ مقامی اطلاعات کے مطابق طالبان نے غیر قانونی طور پر کابل مزار شریف ہائی وے پر ناکے لگا دیے ہیں۔
طالبان کے حملے ایسے موقع پر شدت اختیار کر رہے ہیں، جب افغان حکومت پر طالبان کے ساتھ جلد از جلد مذاکرات کرنے کے لیے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
افغان حکومت طالبان کو مذاکرات میں تاخیر کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ امن کی وزارت کی ترجمان ناجیہ انوری نے پیر کے روز کہا کہ حکومت ملک کے قوانین پر عمل کرتے ہوئے طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی۔
اٖفغان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اب تک 5000 طالبان قیدیوں میں سے 4400 کو رہا کر چکی ہے جب کہ باقی ماندہ قیدی سنگین جرائم میں ملوث ہیں اور ان میں کچھ ایسے قیدی بھی شامل ہیں جنہیں کئی غیر ملکی حکومتیں جیل میں رکھنے پر اصرار کرتی ہیں۔
29 فروری کو امریکہ کے ساتھ طے پانے والے طالبان کے معاہدے میں طالبان نے 1000 افغان فورسز کے ان اہل کاروں کو رہا کرنا تھا جو ان کی قید میں ہیں۔ طالبان اب تک 845 قیدی رہا کر چکے ہیں۔
افغان حکوت بین الافغان مذاکرات جلد شروع کرنے کی خواہش مند ہے تاکہ طویل جنگ کا خاتمے اور افغانستان کے مستقبل پر بات چیت ہو سکے جب کہ طالبان رہنما تمام طالبان قیدیوں کی رہائی سے قبل حملے روکنے اور انٹرا افغان مذاکرات میں شرکت کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں۔