امریکی فوج نے آج پیر کے روز تصدیق کی ہے کہ اُس نے افغانستان کے شمالی علاقے میں داعش کے مقامی لیڈر قاری حکمت اللہ کو ہلاک کر دیا ہے۔
امریکی فوج کی ترجمان کرنل لیزا گارشیا نے کہا ہے کہ قاری حکمت اللہ اور اُس کا محافظ اُس وقت ہلاک کر دئے گئے جب وہ فریاب صوبے کے ضلع بل چراغ میں جمعرات کے روز چہل قدمی کر رہے تھے۔ اس حملے کی اطلاع ہفتے کے روز افغان میڈیا اور سرکاری حلقوں میں پھیلنے لگی اور کچھ سرکاری اہلکاروں نے اس حملے اور قاری حکمت اللہ کی ہلاکت کا مقام کابل سے 275 میل دور جوزجان صوبے کے ضلع درباز ظاہر کیا تھا۔
قاری حکمت اللہ اذبکستان میں پیدا ہوا تھا اور اُس نے برسوں جوزبان میں طالبان کمانڈر کی حیثیت سے زندگی گزاری تھی۔ بعد میں وہ طالبان سے اختلافات کے بعد داعش میں شامل ہو گیا تھا۔
قبل اذیں صوبائی گورنر مولوی لطیف اللہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ حکمت اللہ کا ایک قریبی ساتھی بھی اس حملے میں مارا گیا۔ ان کے بقول اس تنظیم کے کچھ ارکان نے رات گئے ان دونوں کے جنازے میں شرکت کی اور ایک قریبی دیہات میں انھیں سپرد خاک کر دیا۔
امریکی فوج کی ترجمان کرنل لیزا گارشیا نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ "ہم داعش خراسان کو شکست دینے کے لیے جوزجان اور شمالی افغانستان میں بھرپور کارروائیاں کر رہے ہیں۔"
اس سے قبل بھی داعش کے کئی سرکردہ کمانڈر افغانستان میں ہونے والی کارروائیوں میں مارے جا چکے ہیں۔
داعش خراسان کا ایک راہنما ابو سید جولائی 2017ء میں کنٹر میں امریکی فضائی حملے میں ہلاک ہوا تھا۔ اس نے اپریل 2017ء میں ننگرہار میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں ہلاک ہونے والے شدت پسند گروپ کے مقامی سربراہ عبداللہ حسیب کے بعد تنظیم کی یہاں قیادت سنبھالی تھی۔