داعش کے شدت پسند گروپ کے دہشت گرد حملے کے بعد افغانستان میں تناؤ کے ماحول میں اضافہ ہوا ہے، جس میں ایک اقلیتی شیعہ گروپ کے 80 سے زیادہ ارکان ہلاک ہوئے، اور ملک میں داعش کے چوٹی کے کمانڈر نے دھمکی دی ہے کہ شامی کی حکومت کے ہمراہ لڑنے کی سزا کے طور پر افغان شیعاؤں پر مزید تشدد ہوگا۔
ہفتے کو ہونے والا حملہ سنہ 2001 میں طالبان کی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے اب تک کا مہلک ترین حملہ تھا، جس میں ہزاروں کی تعدد میں ہزارہ برادری شریک تھی جن کی احتجاجی ریلی کو نشانہ بنایا گیا، جن میں اکثریت شیعہ مسلک کے اراکین کی تھی۔ وہ حکومت سے مطالبہ کر رہے تھے کہ بجلی کی مجوزہ لائن اُن کے غریب علاقے سے گزرے۔ بم حملے میں 200 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔
داعش سے منسلک ایک ویب سائٹ پر ہفتے کو شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ حملہ داعش کے دو لڑاکوں نے کیا اور اس کا مقصد ہزارہ برادری کو متنبہ کرنا ہے کہ وہ اُن کے دہشت گرد گروپ سے لڑنے کے لیے حکومتِ شام کا ساتھ نہ دیں۔
یہ بظاہر اُن خبروں کی جانب حوالہ ہے جن میں کہا جاتا ہے کہ ایران میں مقیم تقریباً 30 لاکھ افغان مہاجرین میں سے خفیہ طور پر سرکاری افواج کے ہمراہ لڑنے کے لیے افراد کو بھرتی کرکے تربیت دی جاتی ہے۔
داعش کے افغانستان میں خودساختہ کمانڈر، ابو عمر خراسانی نے متنبہ کیا ہے کہ مزید حملے کیے جا سکتے ہیں۔