طالبان باغیوں نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ اُس نے افغانستان کے صوبہٴ جوزجان سے داعش کا صفایا کر دیا ہے، اور اس بات کا دعویٰ کیا کہ داعش کے باقی ماندہ عسکریت پسند بھاگ نکلنے کے بعد علاقے کی سرکاری افواج کے سامنے ہتھیار ڈال چکے ہیں۔
جوزجان کی سرحدیں ہمسایہ ترکمانستان سے ملتی ہیں۔ صوبائی حکام نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ داعش کے تقریباً 150 لڑاکے، جن میں غیرملکی شامل ہیں، جنھوں نے بدھ کو سلامتی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالے ہیں، ایسے میں جب ضلعہٴ درزاب میں طالبان نے حملہ جاری رکھا۔
سکیورٹی پر مامور صوبائی پولیس اہلکار، عبدالحفیظ خاشی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ داعش کے علاقائی کمانڈر، حبیب الرحمٰن پہلے شدت پسند تھے جو صبح ضلعی پولیس کے صدر دفتر پہنچے اور ہتھار ڈالے۔
درزاب میں داعش کے خلاف ہونے والے حملے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے، طالبان کے ترجمان، ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ طالبان نے تین ہفتے قبل کارروائی کا آغاز کیا اور بدھ کی علی الصبح داعش کے آخری ٹھکانے کو زیر کیا۔
مجاہد نے کہا کہ طالبان کی کارروائی میں داعش کے افغان دھڑے کےتقریباً 100 عسکریت پسند، جسے دولت اسلامیہ خراسان بھی کہا جاتا ہے، کے تقریباً 130 دیگر لڑاکوں کو پکڑ لیا۔
اُنھوں نے بتایا کہ لڑائی میں 17 طالبان لڑاکے بھی ہلاک، جب کہ 13 زخمی ہوئے۔
داعش کے دہشت گرد گروپ نے 2015ء کے اوائل میں افغانستان کے صوبہٴ ننگرہار میں قدم رکھا، جس کے سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں۔ تب سےاُس نے اپنی سرگرمیاں مشرق کے قریبی صوبوں کُنڑ اور نورستان تک بڑھا دیں، اور اس کا اثر ہوتے ہوتے شمال میں جوزجان تک جا پہنچا۔
جوزجان میں دولت اسلامیہ کے سر اٹھانے سے خاص طور پر روس میں تشویش پیدا ہوئی۔ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران روس کی جانب سے طالبان کے ساتھ قربت کا سبب شمالی افغانستان کے لاقانونیت والے خطے سے درپیش خطرات کا امکان ہے۔ یہ علاقہ وسط ایشیائی ریاستوں کی سرحدوں کے قریب ہے، جس سے روس کی علاقائی سلامتی اور خطے کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔