کابل کے حساس علاقے میں جس ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا وہ غیر ملکی شہریوں، اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور مالدار افغانوں بشمول سیاستدانوں میں خاصا مقبول ہے۔
اسلام آباد —
افغانستان کی وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ کابل کے ایک پر تعیش ہوٹل پر طالبان کے حملے میں چار غیر ملکیوں سمیت کم از کم نو افراد ہلاک ہوئے۔
حکام کے مطابق مرنے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ دارالحکومت کابل کے حساس علاقے میں جس ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا وہ غیر ملکی شہریوں، اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور مالدار افغانوں بشمول سیاستدانوں میں خاصا مقبول ہے۔
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے جمعہ کو کابل میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ چار نوجوان جمعرات کی شب ہوٹل میں نئے سال ’نوروز‘ کے سلسلے میں کھانا کھانے کے لیے داخل ہوئے۔
اُنھوں نے کہا کہ چار میں سے دو نوجوانوں نے ہوٹل کے ایک ریسورنٹ میں کھانا کھانے والوں پر فائرنگ کی جس میں دو بچوں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے جب کہ حملہ آوروں نے دو دیگر افراد کو لابی میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔
ترجمان نے کہا کہ ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں فائرنگ کرنے والے دونوں حملہ آور سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مارے گئے۔
صدیق صدیقی کے مطابق دو دیگر حملہ آور ہوٹل کے واش رومز میں تھے جنہیں سکیورٹی فورسز نے وہیں تک محدود کر کے ہلاک کر دیا۔
اُنھوں نے حساس علاقے میں واقع ہوٹل میں مسلح نوجوانوں کے داخلے کو ہوٹل انتظامیہ کی سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا۔
ترجمان کے مطابق ہلاک ہونے والے چار غیر ملکیوں میں بنگلہ دیش کے دو، جب کہ کینیڈا اور پیراکوئے کا ایک ایک شہری شامل ہے۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے تاحال اس کی تصدیق نہیں کی گئی کہ کابل کے ہوٹل پر حملے میں اس کا کوئی شہر ہلاک ہوا۔
افغانستان میں یہ حملہ ایسے وقت ہوا جب ملک میں پانچ اپریل کو صدارتی انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں اور اس عمل کے دوران امن و امان کو یقینی بنانا افغان فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
افغان وزارت داخلہ ترجمان صدیق صدیقی نے کہا کہ ’’مستقبل میں اس طرح کے حملوں کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ پولیس، انٹیلی جنس یونٹ اور تمام ادارے سخت محنت کر رہے ہیں اور ہم انتخابات کے لیے تیار ہیں۔ اس طرح کے حملے ہمیں اپنے اہداف تک پہنچنے سے نہیں روک سکتے‘‘۔
کابل میں ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔
افغانستان کے مشرقی صوبے جلال آباد میں جمعرات کو طالبان جنگجوؤں نے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کر کے کم از دس اہلکاروں سمیت 11 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
طالبان کی طرف سے حالیہ مہینوں میں ایک بار پھر پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور جنگجوؤں نے صدارتی انتخابات میں شرکت کرنے والوں پر حملوں کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔
حکام کے مطابق مرنے والوں میں دو بچے بھی شامل ہیں۔ دارالحکومت کابل کے حساس علاقے میں جس ہوٹل کو نشانہ بنایا گیا وہ غیر ملکی شہریوں، اقوام متحدہ کے عہدیداروں اور مالدار افغانوں بشمول سیاستدانوں میں خاصا مقبول ہے۔
افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے جمعہ کو کابل میں نیوز کانفرنس میں کہا کہ چار نوجوان جمعرات کی شب ہوٹل میں نئے سال ’نوروز‘ کے سلسلے میں کھانا کھانے کے لیے داخل ہوئے۔
اُنھوں نے کہا کہ چار میں سے دو نوجوانوں نے ہوٹل کے ایک ریسورنٹ میں کھانا کھانے والوں پر فائرنگ کی جس میں دو بچوں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے جب کہ حملہ آوروں نے دو دیگر افراد کو لابی میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا۔
ترجمان نے کہا کہ ہوٹل کے ریسٹورنٹ میں فائرنگ کرنے والے دونوں حملہ آور سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں مارے گئے۔
صدیق صدیقی کے مطابق دو دیگر حملہ آور ہوٹل کے واش رومز میں تھے جنہیں سکیورٹی فورسز نے وہیں تک محدود کر کے ہلاک کر دیا۔
اُنھوں نے حساس علاقے میں واقع ہوٹل میں مسلح نوجوانوں کے داخلے کو ہوٹل انتظامیہ کی سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا۔
ترجمان کے مطابق ہلاک ہونے والے چار غیر ملکیوں میں بنگلہ دیش کے دو، جب کہ کینیڈا اور پیراکوئے کا ایک ایک شہری شامل ہے۔
تاہم پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے تاحال اس کی تصدیق نہیں کی گئی کہ کابل کے ہوٹل پر حملے میں اس کا کوئی شہر ہلاک ہوا۔
افغانستان میں یہ حملہ ایسے وقت ہوا جب ملک میں پانچ اپریل کو صدارتی انتخابات کی تیاریاں جاری ہیں اور اس عمل کے دوران امن و امان کو یقینی بنانا افغان فورسز کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
افغان وزارت داخلہ ترجمان صدیق صدیقی نے کہا کہ ’’مستقبل میں اس طرح کے حملوں کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ پولیس، انٹیلی جنس یونٹ اور تمام ادارے سخت محنت کر رہے ہیں اور ہم انتخابات کے لیے تیار ہیں۔ اس طرح کے حملے ہمیں اپنے اہداف تک پہنچنے سے نہیں روک سکتے‘‘۔
کابل میں ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری طالبان نے قبول کی ہے۔
افغانستان کے مشرقی صوبے جلال آباد میں جمعرات کو طالبان جنگجوؤں نے ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کر کے کم از دس اہلکاروں سمیت 11 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
طالبان کی طرف سے حالیہ مہینوں میں ایک بار پھر پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور جنگجوؤں نے صدارتی انتخابات میں شرکت کرنے والوں پر حملوں کی دھمکی بھی دے رکھی ہے۔