افغانستان کے صدر حامد کرزئی کے سوتیلے بھائی منگل کو ایک قاتلانہ حملے میں ہلاک ہوگئے ۔
جنوبی صوبہ قندھار کے گورنر کے ایک ترجمان نے اس وقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مقتول احمد ولی کرزئی کو بظاہر ان کے اپنے ہی ایک محافظ نے اس وقت گولی مار کرہلاک کردیا جب وہ مہمان خانے میں دوستوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔
صدر حامد کرزئی سے ایک فون گفتگو میں امریکی وزیر خارجہ ہلری کلنٹن نے احمد کرزئی کے قتل پر تعزیت کی اور کہا کہ امریکہ اس قتل کی شدید مذمت کرتا ہے۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے جانب سے جاری کی گئی اس فون کال کی تفصیلات کے مطابق ہلری کلنٹن نے کہا کہ افغانستان کے عوام ایک طویل عرصے سے تشدد، عدم رواداری اور انتہا پسندی کا شکار ہیں۔
ولی کرزئی 1961 میں جنوبی افغانستان کے علاقے کرز میں پیدا ہوئے۔ وہ قندھار کی صوبائی کونسل کے سربراہ اور علاقے کی ایک بااثر شخصیت تھے۔
افغان حکومت میں بدعنوانی میں ملوث افراد میں ولی کرزئی کا نام بھی سرفہرست تھا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق مقتول ولی کرزئی کو 2001 سے مبینہ طور پر امریکی سی آئی اے رقم فراہم کررہی تھی تاکہ وہ قندھار میں ایسی منظم فورس کو فروغ دے سکیں جو طالبان کے خلاف حملوں میں اس کی مدد کرسکے۔
2007 میں افغان پارلیمان میں کھلے عام ولی کرزئی پر یہ الزام لگایا گیا کہ وہ منشیات کی بین الاقوامی اسمگلنگ میں ملوث ہیں۔ ان پر یہ الزام بھی لگایا جاچکا ہے کہ انھوں نے گزشتہ صدارتی انتخابات کے موقع پر قندھار میں پولنگ اسٹیشنوں کو بند کرکے بیلٹ بکسوں میں بوگس ووٹ ڈالے، خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں ان کے بھائی صدر حامد کرزئی کی مخالفت زیادہ تھی۔
لیکن صدر کرزئی اپنے بھائی پر لگائے جانے والے ان الزامات کو مسترد کرتے آئے ہیں۔
پاکستانی وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے افغان صدر کو ٹیلی فون کر کے ان کے بھائی کے قتل پر گہرے دکھ اورافسوس کا اظہار کیا ہے۔
مقتول ولی کرزئی پر پہلے بھی دو قاتلانہ حملے کیے جاچکے تھے جس میں وہ تو محفوظ رہے تاہم 2009ء میں ہونے والے ایک حملے میں ان کا ایک محافظ ہلاک ہوگیا تھا۔