جان کیری کا بھی کہنا تھا کہ امریکہ یہ امید رکھتا ہے کہ طالبان القاعدہ سے تعلق ختم کر دیں گے، ہتھیار پھینک دیں گے اور خواتین اور اقلیتوں کے تحفظ پر افغان آئین کے مطابق عمل کریں گے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ جان کیری نے کابل میں افغان صدر حامد کرزئی سے ملاقات میں طالبان کو مصالحتی عمل میں شامل کرنے کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا ہے۔
اعلٰی امریکی عہدیدار اور صدر کرزئی نے مصالحتی عمل کے سلسلے میں قطر میں طالبان کے دفتر کھولنے کے منصوبے کی حمایت کی ہے۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ امید رکھتا ہے کہ طالبان القاعدہ سے تعلق ختم کر دیں گے، ہتھیار پھینک دیں گے اور خواتین اور اقلیتوں کے تحفظ پر افغان آئین کے مطابق عمل کریں گے۔
بصورت دیگر ان کا کہنا تھا کہ صدر براک اوباما یہ واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ اس طویل جنگ میں دی جانے والی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔
’’امید ہے کہ طالبان اس بات کو سمجھیں گے کہ تشدد کی راہ کی بجائے امن اور امن بات چیت ہی اختلافات کو ختم کرنے اور سیاسی عمل میں شرکت کا بہترین راستہ ہیں۔‘‘
صدر کرزئی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ یہ طالبان کے مفاد میں ہے کہ وہ تشدد کی راہ ترک کردیں اور اپنے افغان ہم وطنوں کو ہلاک کرنا چھوڑ دیں۔
’’یہ ان کے مفاد میں ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز اور بین الاقوامی برادری کو تکلیف دینا چھوڑ دیں۔ ان کے لیے یہ اچھا ہے کہ وہ اپنی مادر وطن میں واپس آئیں اور اپنے خاندان اور بچوں کی پروش کریں اور ایک اچھا معیار زندگی اپنائیں۔‘‘
2008ء کے بعد سے جان کیری کا کابل کا یہ چھٹا دورہ ہے اور امریکی حکام صدر کرزئی سے ان کے ذاتی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے توقع کر رہے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان بسا اوقات کشیدہ ہو جانے والے تعلقات کو بہتر کرسکیں گے۔
امریکی وزیر خارجہ کیری کا کہنا تھا کہ خاص طور پر آئندہ برس ہونے والے افغان انتخابات کے تناظر میں امریکہ کی طرف سے مقامی سکیورٹی فورسز کی استعداد کار بڑھانے اور طالبان کے ساتھ امن عمل میں امریکہ کے کردار کے بارے میں افغانستان کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
اپنے دورے کے دوران جان کیری سول سوسائٹی کے نمائندوں اور مختلف سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں جس میں اپریل 2014ء میں ہونے والے ملک گیر انتخابات کے بارے میں بھی بات چیت کی جائے گی۔
اعلٰی امریکی عہدیدار اور صدر کرزئی نے مصالحتی عمل کے سلسلے میں قطر میں طالبان کے دفتر کھولنے کے منصوبے کی حمایت کی ہے۔
جان کیری کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ امید رکھتا ہے کہ طالبان القاعدہ سے تعلق ختم کر دیں گے، ہتھیار پھینک دیں گے اور خواتین اور اقلیتوں کے تحفظ پر افغان آئین کے مطابق عمل کریں گے۔
بصورت دیگر ان کا کہنا تھا کہ صدر براک اوباما یہ واضح کر چکے ہیں کہ امریکہ اس طویل جنگ میں دی جانے والی قربانیوں کو ضائع نہیں ہونے دے گا۔
’’امید ہے کہ طالبان اس بات کو سمجھیں گے کہ تشدد کی راہ کی بجائے امن اور امن بات چیت ہی اختلافات کو ختم کرنے اور سیاسی عمل میں شرکت کا بہترین راستہ ہیں۔‘‘
صدر کرزئی کا اس موقع پر کہنا تھا کہ یہ طالبان کے مفاد میں ہے کہ وہ تشدد کی راہ ترک کردیں اور اپنے افغان ہم وطنوں کو ہلاک کرنا چھوڑ دیں۔
’’یہ ان کے مفاد میں ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز اور بین الاقوامی برادری کو تکلیف دینا چھوڑ دیں۔ ان کے لیے یہ اچھا ہے کہ وہ اپنی مادر وطن میں واپس آئیں اور اپنے خاندان اور بچوں کی پروش کریں اور ایک اچھا معیار زندگی اپنائیں۔‘‘
2008ء کے بعد سے جان کیری کا کابل کا یہ چھٹا دورہ ہے اور امریکی حکام صدر کرزئی سے ان کے ذاتی تعلقات کو مدنظر رکھتے ہوئے توقع کر رہے ہیں کہ وہ دونوں ملکوں کے درمیان بسا اوقات کشیدہ ہو جانے والے تعلقات کو بہتر کرسکیں گے۔
امریکی وزیر خارجہ کیری کا کہنا تھا کہ خاص طور پر آئندہ برس ہونے والے افغان انتخابات کے تناظر میں امریکہ کی طرف سے مقامی سکیورٹی فورسز کی استعداد کار بڑھانے اور طالبان کے ساتھ امن عمل میں امریکہ کے کردار کے بارے میں افغانستان کو کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔
اپنے دورے کے دوران جان کیری سول سوسائٹی کے نمائندوں اور مختلف سیاسی رہنماؤں سے بھی ملاقات کریں جس میں اپریل 2014ء میں ہونے والے ملک گیر انتخابات کے بارے میں بھی بات چیت کی جائے گی۔