بین الافغان بات چیت کی کوششیں اور ساتھ ہی تشدد کا سلسلہ جاری

  • قمر عباس جعفری

فائل

افغانستان میں ایک جانب تو امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری میں ہونے والے معاہدے کے مطابق قیام امن اور بین الافغان بات چیت کے لئے کوششیں جاری ہیں، دوسری جانب تشدد کا سلسلہ بھی جاری ہے۔

افغان عہدیداروں کے مطابق، بدخشان صوبے میں ہفتے کے روز سڑک پر لگائے گئے بم دھماکے میں کم از کم گیارہ پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ ایسے میں جب معاہدے کے مطابق افغانستان میں امریکی افواج پر حملے نہیں کئے جا رہے، لیکن افغان سیکیورٹی فورسز اور پولیس پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔

دریں اثنا، افغانستان کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اپنی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لئے ایک بار پھر افغانستان، پاکستان اور قطر کے دورے ہر روانہ ہو گئے ہیں۔

ادھر پاکستان نے بھی افغانستان میں اپنے سابق سفیر، محمد صادق کو افغانستان کے لئے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کیا ہے اور افغان مسئلے کے بیشتر فریقین کی کوشش ہے کہ قیام امن کے اس موقع کو ضائع نہیں ہونا چاہئے۔

لیکن، افغان امور کے ایک ماہر، پاکستان کے انسٹیٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے بریگیڈیئر سعد نذیر کا کہنا ہے وہ قوتیں قدم قدم پر رکاوٹیں ڈال رہی ہیں، جن کے مفاد میں نہیں ہے کہ افغانستان میں امن برقرار ہو۔

انھوں نے کہا کہ یہ قوتیں کافی طاقتور ہیں اور لگتا ہے کہ انکے لوگ اسٹیک ہولڈرز میں سرایت کئے ہوئے ہیں اور قدم قدم پر رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات میں افغانستان کی حکومت بھی اپنے لئے مستقبل کے کسی اہم رول کا تعین اور اسکے لئے ضمانت حاصل کرنا چاہتی ہے۔

تاہم، انہوں نے کہا کہ اس عمل کے پہلے مرحلے یعنی طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے بعد اب امریکہ کی پوری کوشش ہے کہ بقیہ مراحل کو مکمل کرکے امن عمل کو اسکے منطقی انجام تک پہنچایا جائے، کیونکہ، بقول ان کے،''یہ صدر ٹرمپ کی حکومت کی ضرورت ہے''۔ امریکہ میں یہ صدارتی انتخابات کا سال ہے اور صدر چاہتے ہیں کہ افغانستان میں متعین امریکی فوجوں کو وطن واپس لانے کا اپنا وعدہ پورا کر کے سرخروئی حاصل کریں۔

انہوں نے کہا کہ معاملات کو بگاڑنے کی کوششوں میں افغانستان میں سرگرم دوسرے دہشت گروپوں خاص طور سے داعیش کا بڑا ہاتھ ہے، جو، بقول ان کے، ''یقیناً، ان قوتوں کے اشارے پر کام کر رہی ہیں جن کے مفادات افغانستان میں بد امنی سے وابستہ ہیں''۔ لیکن، انہوں نے کہا کہ اب حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ امن کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے اس مقصد کے لئے ایک خصوصی ایلچی مقرر کرکے درست سمت میں اقدام کیا ہے۔

افغان صحافی اور تجزیہ کار انیس الرحمان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت افغانستان میں داعش کا رول بہت خطرناک ہو گیا ہے، جس میں طالبان اور القائدہ کے وہ لوگ شامل ہیں جو اپنے اپنےگروپوں کی کارکردگی سے مطمئن نہیں تھے اور وہاں سے مایوس ہو کر نکلے ہیں۔ اور وہ کسی صورت وہاں امن قائم نہیں ہونے دینا چاہتے۔

انیس الرحمان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان ایک دوسرے پر حملے نہ کرنا طے کیا گیا ہے اور وہ نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن، تشدد تو بہرحال ہو رہا ہے۔ اگر افغان فوجی یا پولیس اہلکار مرتے ہیں تو وہ اور ان کے اہل خانہ بھی تو افغانی ہی ہیں۔ نقصان تو افغانوں کا ہی ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر افغانستان کو اس حالت میں چھوڑا گیا، تو پھر، بقول ان کے، وہاں خانہ جنگی کو کوئی نہیں روک سکے گا اور جو دوسری علاقائی قوتیں ہیں وہ اس سے فائدہ اٹھائیں گی۔
تجزیہ کار نے کہا کہ اسوقت تو سوائے طالبان اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے اور کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی۔ بس امید ہی کی جاسکتی ہے اور یہ امید کب اور کیسے پوری ہوگی کوئی نہیں جانتا۔