افغانسان میں حکام کے مطابق ملک کے محصور شمالی شہر قندوز میں جانے والی مسافر پروازیں معطل کر دی گئی ہیں۔ سینکڑوں طالبان قندوز میں افغان فورسز سے برسرِ پیکار ہیں جو انہیں شہر کے مضافات سے نکالنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔
قندوز کے نواح میں تقریباً دو ہفتے سے جاری جھڑپوں نے ہزاروں لوگوں کو اپنے گھروں سے محفوظ مقام کی طرف بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ جھڑپیں افغانستان سے غیر ملکی لڑاکا افواج کے گزشتہ سال انخلا کے بعد افغان فورسز کے لیے سب سے بڑا چیلنج ثابت ہوئی ہیں۔
افغان فورسز نے عزم کر رکھا ہے کہ صوبائی دارالحکومت کو طالبان کے قبضے میں نہیں جانے دیں گی جو غیر ملکی "جہادیوں" کے ساتھ مل کر لڑائی میں مصروف ہیں۔
مگر گل ٹیپا اور دوسرے جنوبی علاقوں سے باغیوں کو نکالنے میں افواج کو جس مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس سے افغان فورسز کی صلاحیت کے بارے میں نئے خدشات نے جنم لیا ہے۔
لڑائی کے باعث افغان ائیرلائن ’ایسٹ ہورائزنز‘ نے کابل سے قندوز جانے والی اپنی ہفتہ وار ایک پرواز معطل کر دی ہے۔ یہ پرواز شمالی شہر جانے والے مسافروں کے لیے واحد فضائی رابطہ ہے۔
قندوز کے پولیس ترجمان سید سرور حسینی نے بتایا ہے کہ فوج اور پولیس نے مقامی طالبان مخالف ملیشیا کے ساتھ مل کر گزشتہ دو روز کے دوران 8 غیر ملکیوں سمیت 35 طالبان کو ہلاک کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مرنے والوں میں عورتیں بھی شامل ہیں اور غیر ملکیوں کا تعلق پاکستان، ازبکستان اور چیچنیا سے ہے۔
پولیس ترجمان نے کہا کہ ہلاک ہونے والے غیر ملکی جنگجوؤں کے پاس انہیں طالبان کا سفید جھنڈا ملا ہے مگر عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم ’داعشُ کے قندوز میں ملوث ہونے کا کوئی سراغ نہیں ملا۔
افغانستان کے جنوب اور مشرق میں اپنے روائتی ٹھکانوں سے دور شمال میں طالبان کی جنگ کو ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جہاں افغان فورسز کی تعداد کم ہے۔