وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر اگر آنے والے چند ہفتوں میں معاہدہ نا ہوا تو اس سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے لیے 2014ء کے بعد افغانستان میں اپنی موجودگی کے بارے میں منصوبہ بندی ممکن نہیں ہو گی۔
افغانستان میں لگ بھگ ڈھائی ہزار سیاسی و قبائلی عمائدین پر مشتمل لویہ جرگہ میں جمعہ کو بھی امریکہ سے سکیورٹی معاہدے پر غور کیا جا رہا ہے۔
افغان صدر حامد کرزئی نے جمعرات کو لویہ جرگہ سے خطاب میں اُس وقت امریکہ اور افغانستان کے عہدیداروں کو حیران کر دیا جب اُنھوں نے کہا کہ وہ اپریل 2014 میں ملک کے صدارتی انتخابات کے بعد تک افغان امریکہ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کو موخر کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر اگر آنے والے چند ہفتوں میں معاہدہ نا ہوا تو اس سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے لیے 2014ء کے بعد افغانستان میں اپنی موجودگی کے بارے میں منصوبہ بندی ممکن نہیں ہو گی۔
صدر کرزئی کے اس بیان سے افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اُنھوں نے جمعرات کو لویہ جرگہ میں شریک لگ بھگ 2500 قبائلی رہنماؤں سے اپنے افتتاحی خطاب میں امریکہ سے مجوزہ معاہدے کے حق میں بیان دیا تھا۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ اُنھیں اس معاملے پر ماسوائے ایران کے دیگر علاقائی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور صدر کرزئی نے لویہ جرگہ سے بھی کہا تھا کہ امریکہ سے سکیورٹی معاہدے کی حمایت کریں۔
مجوزہ معاہدہ منظوری کے بعد یکم جنوری 2015ء سے نافذ العمل ہو گا جس کے تحت امریکہ کو 2024ء اور ممکنہ طور پر اس کے بعد افغانستان میں اپنے فوجی اور دیگر عملہ رکھنے کی اجازت ہو گی۔
صدر کرزئی نے لویا جرگہ سے خطاب کے دوران امریکہ کے صدر براک اوباما کے خط کے متن کے کچھ حصے پڑھ کر بھی سنائے جس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ نئے سکیورٹی معاہدے کے تحت افغانوں سے عزت و احترام سے پیش آیا جائے گا۔
صدر اوباما نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ افغان عوام کے تحفظ کے لیے متعدد امریکی ہلاک و زخمی بھی ہو چکے ہیں۔
افغان صدر حامد کرزئی نے جمعرات کو لویہ جرگہ سے خطاب میں اُس وقت امریکہ اور افغانستان کے عہدیداروں کو حیران کر دیا جب اُنھوں نے کہا کہ وہ اپریل 2014 میں ملک کے صدارتی انتخابات کے بعد تک افغان امریکہ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کو موخر کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
وائٹ ہاؤس کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مجوزہ سکیورٹی معاہدے پر اگر آنے والے چند ہفتوں میں معاہدہ نا ہوا تو اس سے امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے لیے 2014ء کے بعد افغانستان میں اپنی موجودگی کے بارے میں منصوبہ بندی ممکن نہیں ہو گی۔
صدر کرزئی کے اس بیان سے افغانستان کے لیے بین الاقوامی امداد خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ اُنھوں نے جمعرات کو لویہ جرگہ میں شریک لگ بھگ 2500 قبائلی رہنماؤں سے اپنے افتتاحی خطاب میں امریکہ سے مجوزہ معاہدے کے حق میں بیان دیا تھا۔
افغان صدر کا کہنا تھا کہ اُنھیں اس معاملے پر ماسوائے ایران کے دیگر علاقائی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے اور صدر کرزئی نے لویہ جرگہ سے بھی کہا تھا کہ امریکہ سے سکیورٹی معاہدے کی حمایت کریں۔
مجوزہ معاہدہ منظوری کے بعد یکم جنوری 2015ء سے نافذ العمل ہو گا جس کے تحت امریکہ کو 2024ء اور ممکنہ طور پر اس کے بعد افغانستان میں اپنے فوجی اور دیگر عملہ رکھنے کی اجازت ہو گی۔
صدر کرزئی نے لویا جرگہ سے خطاب کے دوران امریکہ کے صدر براک اوباما کے خط کے متن کے کچھ حصے پڑھ کر بھی سنائے جس میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ نئے سکیورٹی معاہدے کے تحت افغانوں سے عزت و احترام سے پیش آیا جائے گا۔
صدر اوباما نے اپنے خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ افغان عوام کے تحفظ کے لیے متعدد امریکی ہلاک و زخمی بھی ہو چکے ہیں۔