جنوبی افغانستان میں جمعرات کو مسلح عسکریت پسندوں نے دو سرکاری عمارتوں پر حملہ کیا جس میں 17 افراد ہلاک اور 37 زخمی ہوگئے۔
حکام نے بتایا ہے کہ حملہ آوروں نے ارزگان صوبے کے مرکزی شہر ترین میں گورنر کی رہائش گاہ اور پولیس کے صدر دفتر پر حملہ کیا۔ طالبان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں چھ خودکش حملہ آوروں نے حصہ لیا۔
محکمہ صحت کے عہدیداروں کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کا کہنا ہے کہ اس کا ایک جزوقتی نمائندہ بھی اس واقعے میں ہلاک ہوا ہے۔
نیٹو کی زیر کمان بین الاقوامی افواج نے کابل میں جاری کیے گئے بیان میں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابتدائی اطلاعات کے مطابق مرنے والوں میں پولیس افسران، خواتین اور دس بچے بھی شامل ہیں۔
اس واقعے سے ایک روز قبل جنوبی صوبے قندھار میں ہونے والے ایک خودکش حملے شہر کے میئرغلام حیدر حمیدی کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ رواں ماہ صدر حامد کرزئی کی حکومت کی اہم شخصیات کو ہلاک کرنے کا یہ تازہ ترین واقعہ تھا۔
قبل ازیں 12جولائی کو قندھار میں صدر کرزئی کے سوتیلے بھائی اور صوبائی کونسل کے سربراہ احمد ولی کرزئی کو ان کے ایک وفادار محافظ نے گولیاں مار کرہلاک کردیا تھااور اسی ہفتے کابل میں افغان صدر کے ایک قریبی مشیر جان محمد خان کے گھر پر عسکریت پسندوں نے حملہ کر کے انھیں ہلاک کردیا۔
باور کیا جاتا ہے کہ اہم حکومتی شخصیات کی ہلاکت کے بعد جنوبی افغانستان میں صدر کرزئی کی گرفت کمزور ہوسکتی ہے۔ یہ علاقہ طالبان کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔